سنن ابي داود
تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها -- ابواب: ان چیزوں کی تفصیل، جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور جن سے نہیں ٹوٹتی
114. باب مَنْ قَالَ الْمَرْأَةُ لاَ تَقْطَعُ الصَّلاَةَ
باب: نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 711
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَهِيَ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ رَاقِدَةٌ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَرْقُدُ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَهَا فَأَوْتَرَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رات کی نماز پڑھتے اور وہ آپ کے اور قبلے کے بیچ میں اس بچھونے پر لیٹی رہتیں جس پر آپ سوتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو انہیں جگاتے تو وہ بھی وتر پڑھتیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16902، 16333) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 511  
´آدمی کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا `
«. . . رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَإِنِّي لَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ عَلَى السَّرِيرِ، فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ فَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ فَأَنْسَلُّ انْسِلَالًا . . .»
. . . ‏‏‏‏ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کے درمیان (سامنے) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 511]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا (شخص) اس کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو کیسا ہے اور ذیل میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی رہتی حالانکہ باب کے مطابق آدمی کا آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی حدیث پیش کرتے ہیں مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش فرمائی جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹے رہنا مضر نہ ہوا تو آدمی کے سامنے آدمی کا لیٹنا سامنے منہ کر کے کیوں کر مضر ہو گا؟ حالانکہ یہ بات بھی «ضوء النهار» کی طرح واضح ہے کہ جو احکام نماز کے لیے مردوں پر ہیں وہی عورتوں کے لیے ہیں، الا یہ کہ چند چیزوں کو شارع علیہ السلام نے عورتوں کے لیے مخصوص فرمایا جیسا کہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے نہ ہو گی وغیرہ۔

صاحب اوجزالمسالک رقمطراز ہیں:
«في الحديث استقبال الرجل المراة فقيل هما سواء، وقيل لمالم يريها باسا، فالرجل بالاولي» [ابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 2، ص 782]
حدیث میں مرد عورت کے استقبال کا ذکر ہے۔ پس دونوں (اس حکم میں) یکساں ہیں (کیونکہ) یہ بھی کہا گیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے امی عائشہ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت نہیں فرمائی تو پھر (آدمی) کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا بالاولی جائز ہے۔

◈ امام کرمانی فرماتے ہیں:
«بان حكم الرجل والمراة واحد فى احكام الشريعة» [فتح الباري ج 1 س 772]
یقیناً مردوں اور عورتوں کا حکم شریعت میں یکساں ہیں۔

◈ ابن رشید فرماتے ہیں:
«قصد البخاري ان شغل المصلي بالمراة اذا كانت فى قبلته على اي حالة كانت اشد من شغله بالرجل» [فتح الباري ج 1 س 773]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب نمازی کے آگے عورت لیٹی ہوئی ہو تو اس کا دل اس کی طرف زیادہ مشغول ہوتا ہے بنسبت مرد کے (یعنی جب عورت کا لیٹنا درست ٹھہرا تو مرد کا لیٹنا کیوں درست نہ ہو گا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے)۔

فائدہ:
صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے کہ عورت، گدھا اور کتّے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، لہٰذا امام الطحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ گردانا ہے لیکن یہاں پر نسخ ثابت نہ ہو گا کیوں کہ عدم علم تاریخ کے بغیر نسخ کا دعوی بےکار ہے اور اگر تطبیق ممکن ہو تو منسوخ قرار دینے کا تکلف باقی نہیں رہتا جمہور اسی طرف گئے ہیں کہ نماز کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی ہاں البتہ جن احادیث میں نماز ٹوٹنے کا ذکر ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا اس میں یہ قول ملتا ہے:
«ومال الشافعي وغيره الي تاويل القطع فى حديث ابي ذربان المراد به نقص الخشوع لا الخروج من الصلاة .» [فتح الباري ج 1 ص 774]
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا میلان اس حدیث (جس میں نماز کے قطع کا حکم ہے کچھ اس طرح سے ہے کہ) قطع کرنے والی جس کو ابوذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے مراد یہ ہے کہ خشوع میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے آدمی نماز سے خارج نہیں ہوتا۔

◈ امام نوی رحمہ اللہ رقمطراظ ہیں:
«وتاول هولاء حديث ابي ذر رضى الله عنه على ان المراد بالقطع نقص الصلاة تشغل القلب بهذه الاشياء وليس المراد ايطالها .» [شرح صحيح مسلم ج 4 ص 220]
یعنی جو حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (کہ نماز عورت، گدھا اور کتے سے ٹوٹ جاتی ہے) اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیوں کہ ان اشیاء کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع اور خضوع میں فرق آنا ہے)۔

◈ علامہ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتا، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع) میں باطل ہونا ہے اور اسی طرح صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے جن میں ابوہریرہ، انس بن مالک اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ [نيل الاوطار۔ ج3 ص 17]

◈ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و ان المراد بالقطع فى الحديث نقص الصلاة يشغل القلب بهذه الاشياء» [الديباج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج1 ص640]
نماز کے قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیوں کہ دل ان اشیاء کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔

◈ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی وجہ سے ان اشیاء کے شغل کے سبب کیوں کہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے۔ نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتیٰ کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع خضوع میں) بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ [المفهم شرح صحيح مسلم ج2 ص109]

صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں!:
اور جو تخصیص کی گئی ہے کہ عورت، کتا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیاء کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھے کی گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے (نمازی) سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ عورت یقیناًً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور صحیح مسلم میں جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناًً جب عورت آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتاہے (یعنی ہینگنا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث کالے کتے کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناًً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتّے ہوں۔ [منة المنعم شرح صحيح مسلم ج1ص328]

◈ محمد بن خلیفۃ الوشتانی الابی رقمطراز ہیں:
«وحمل القطع فى هٰذا الحديث على انه مبالغة فى خوف الافساد بالشغل بها» [اكمال اكمال المعلم۔ ج2ص401]
یعنی نماز کے قطع کرنے کا مقصد اس حدیث میں مبالغہ کے لیے آیا ہے۔ (کیونکہ ان تین اشیاء سے) فساد کے خوف کی وجہ سے اور (ان تین اشیاء میں) شغل بھی ہے۔

ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ عورت، کتا اور گدھے سے نماز ٹوٹنے سے مراد نماز میں خشوع اور خضوع کا باطل ہونا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔
➊ فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر رحمہ اللہ
➋ نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار للشوكاني رحمہ الله
➌ سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی رحمہ اللہ
➍ نصب الراية في تخريج احاديث الهداية للذيلعي رحمہ اللہ
➎ اختلاف الحديث للامام الشافعي رحمہ اللہ
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 168   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 370  
´عورتوں کے کپڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھتے، میں حالت حیض میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میرے اوپر میری ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 370]
370۔ اردو حاشیہ:
➊ اس باب اور پچھلے باب کی احادیث میں تعارض نہیں ہے بلکہ یہ معنی کہ آپ اکثر زوجات کے کپڑوں میں نماز نہ پڑھتے تھے، مگر کبھی کبھی پڑھ لیا کرتے تھے جب کہ یقین ہوتا تھا کہ کپڑا پاک ہے۔
➋ بیوی اگر مصلے کے قریب بیٹھی ہو، لیٹی ہو یا آگے سوئی ہوئی بھی ہو تو کوئی حرج نہیں، نماز جائز اور صحیح ہے۔
➌ یہ اور دیگر احادیث اشارہ کرتی ہیں کہ خیرالقرون میں مسلمان مادّی اعتبار سے کشادہ نہ ہوتے تھے۔ میاں بیوی کے پاس ایک ہی کمبل ہوتا تھا مگر دینی اور عملی اعتبار سے وہ اس قدر ممتاز ہیں کہ پوری امت کے مقتدا ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 370   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 711  
´نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رات کی نماز پڑھتے اور وہ آپ کے اور قبلے کے بیچ میں اس بچھونے پر لیٹی رہتیں جس پر آپ سوتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو انہیں جگاتے تو وہ بھی وتر پڑھتیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 711]
711۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بیوی اگر شوہر کے قریب یا سامنے لیٹی ہوئی ہو تو نماز صحیح ہے۔ گذشتہ حدیث: (694) کا اشکال بھی اس سے دور ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر سامنے کوئی سویا ہوا ہو تو نمازی کی نماز صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 711   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 712  
´نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو گدھے اور کتے کے برابر ٹھہرا دیا، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے عرض میں لیٹی رہتی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں اسے سمیٹ لیتی پھر آپ سجدہ کرتے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 712]
712۔ اردو حاشیہ:
یہ صورت جگہ کی تنگی اور حجرے کی تاریکی کے باعث ہوتی تھی اور یہ کیفیت نماز کے لیے کوئی حارج نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 712   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 714  
´نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمت میں لیٹی رہتی، آپ نماز پڑھتے اور میں آپ کے آگے ہوتی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنا چاہتے (عثمان کی روایت میں یہ اضافہ ہے: تو آپ مجھے اشارہ کرتے، پھر عثمان اور قعنبی دونوں روایت میں متفق ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: سرک جاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 714]
714۔ اردو حاشیہ:
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے کسی کا لیٹا ہوا ہونا اور اس کے آگے سے گزرنا، یہ دو الگ الگ باتیں ہیں، آگے لیٹا ہوا ہونا نماز میں «قادح» (خراب کرنے والا عمل) نہیں۔ البتہ گزرنا خشوع کے منافی ہے، اسی لیے یہ ممنوع ہے اور آگے گزرنے والا سخت گناہ گار۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 714   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 756  
´نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 756]
756 ۔ اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے عورت کا لیٹا ہوا ہونا اور بات ہے اور گزرنا اور بات۔ اول الذکر سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، البتہ گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ گزرنے سے مراد کسی کا نمازی کے آگے سے اس کی ایک جانب سے دوسری جانب، پار کرتا ہے، حدیث میں وارد مرور کی ممانعت سے یہی مقصود ہے، لہٰذا نمازی کے سامنے بیٹھے یا لیٹے انسان کے ایک طرف کھسکنے کو مرور (گزرنا) نہیں کہتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 756   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 760  
´سونے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے بیچ آپ کے بستر پر چوڑان میں سوئی رہتی تھی، تو جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے جگاتے، تو میں (بھی) وتر پڑھتی۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 760]
760 ۔ اردو حاشیہ: جگہ کی تنگی کے پیش نظر ایسا ہوتا ہو گا ورنہ بہتر تو یہی ے کہ سجدہ گاہ تک کوئی چیز سامنے نہ ہو کیونکہ اس سے خیالات منتشر ہوں گے مگر چونکہ یہ رات کا وقت ہوتا تھا، کچھ نظر نہ آتا تھا، لہٰذا کوئی حرج نہیں۔ دن کے وقت بھی اگر اس قسم کی صورت پیش آ جائے، تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اگر شرعاً کوئی قباحت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا قطعاً نہ کرتے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 760   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 769  
´مرد کا ایسے کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان جس کا کچھ حصہ اس کی بیوی پر ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میں حائضہ ہوتی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (بھی) ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 769]
769 ۔ اردو حاشیہ: سردیوں میں کپڑوں کی قلت کی وجہ سے ایسے ہوتا ہو گا۔ اگر نماز کے دوران میں حائضہ عورت کا جسم نمازی سے لگ جائے تو نماز میں خرابی نہ آئے گی، خصوصا جب کہ مجبوری بھی ہو۔ حائضہ عورت کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 769   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث652  
´حائضہ عورت کے کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے تھے، اور میں حیض کی حالت میں آپ کے پہلو میں ہوتی تھی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 652]
اردو حاشہ:
کوئی کپڑا محض حائضہ کے پہننے یا اوڑھنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا جب تک اسے خون نہ لگ جائے اگر خون لگ جائے تو اتنی جگہ سے کپڑا دھوکر پہنایا یا اوڑھا جا سکتا ہےاور اسی کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 652