سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
126. باب مَنْ لَمْ يَرَ الْجَهْرَ بِـ ‏{‏ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ‏}‏
باب: «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 783
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَة، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر تحریمہ «الله اكبر» اور «الحمد لله رب العالمين» کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ۱؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ۲؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 46 (498)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 4 (812)، (تحفة الأشراف: 16040)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/31، 110، 171، 194، 281)، سنن الدارمی/الصلاة 31 (1272) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد شیطان کی مانند دونوں قدموں کا گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے تشہد میں یہ بیٹھک حرام ہے جبکہ دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح کی بیٹھک مسنون و مشروع ہے۔
۲؎: اس سے مراد سجدہ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر بچھانا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 215  
´نماز کا آغاز «الله اكبر» سے`
«. . . كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة بالحمد لله رب العالمين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز «الله اكبر» سے کیا کرتے تھے اور قرآت «الحمد لله رب العالمين» (سورۃ «فاتحه») سے شروع کرتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 215]

لغوی تشریح:
«يَسْتَفْتِحُ» آغاز فرماتے، شروع کرتے۔
«وَالْقَرَاءَةَ» منصوب ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آپ قرأت شروع فرماتے، یعنی «يَفْتَتِحُ» فعل محذوف کا مفعول ہے، یا «اَلصَّلَاةَ» پر عطف ہے اور «يَسْتَفْتِحُ» کا مفعول ہے۔
«لَمْ يُشْخِصْ» «إِشْخَاص» سے ماخوذ ہے۔ (باب افعال۔) اونچا نہ اٹھاتے۔
«وَ لَمْ يُصَوِّبْهُ» تصویب سے ماخوذ ہے، یعنی بہت زیادہ نیچے نہ جھکا تے
«بَيْنَ ذٰلِكَ» ان دونوں کیفیتوں (اونچ، نیچ) کے مابین رکھتے۔
«فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ» دونوں رکعتوں کے بعد۔
«اَلتَّحِيَّةَ» یقول کا مفعول واقع ہو رہا ہے، یعنی تشہد «اَلتَّحِيَّاتُ للهِ . . . إلخ» پڑھتے تھے۔
«وَكَانَ يُفْرِشُ رِجْلُهُ الْيُسْرٰي» اور اپنا بایاں پاؤں زمین پر بچھا لیتے، یعنی اس پر بیٹھ جاتے۔ یہ کیفیت دو سجدوں کے مابین اور پہلے تشہد کے موقع پر بناتے جیسا کہ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب من ذكر التورك فى الرابعة، حديث: 963]
«عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ» عقبہ کی عین پر ضمہ اور قاف ساکن ہے (شیطان کی چوکڑی۔) اسے «إِقْعَاءُ الْكَلْب» بھی کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنی سرین کو زمین پر رکھے، گھٹنے اور پنڈلیاں کھڑی کر لے اور اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ لیے۔ یاد رکھیے کہ اقعاء کی ایک تفسیر اور بھی ہے کہ اپنے دونوں پاؤں کھڑے رکھے اور ایڑیوں پر بیٹھ جائے۔ یہ (دوسری صورت) ممنوع نہیں ہے بلکہ عبادلہ اربعہ (عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھم) کے نزدیک آخری تشہد کے علاوہ یہی کیفیت مختار ہے۔
«اِفْتِرَاش السَّبُع» «سَبُع» کے سین پر فتحہ اور با پر ضمہ ہے۔ با کو مفتوح اور ساکن پڑھنا بھی جائز ہے۔ چیر پھاڑ کرنے والے جانور، یعنی درندے کو کہتے ہیں۔ درندے کی طرح بیٹھنے کی صورت یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں اپنے بازوؤں کو کہنی تک لمبا بچھانے جیسے کہ درندے بیٹھتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔
«وَلهُ عِلَّةٌ» علت اس روایت میں یہ ہے کہ اسے ابوالجوزاء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اور ابوالجوزاء کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ہی ثابت نہیں۔ اس وجہ سے اس حدیث کو معلول قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے فاضل محقق حفظہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ علت مردود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 215   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 783  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر تحریمہ «الله اكبر» اور «الحمد لله رب العالمين» کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ۱؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ۲؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 783]
783۔ اردو حاشیہ:
ان احادیث سے استدلال یہ ہے کہ قراءت کی ابتداء «الحمد الله رب العالمٰين» کے الفاظ سے ہوتی تھی نہ کہ «بسم الله» کے الفا ظ سے مگر شوافع وغیرہ جو «بسم الله» جہر پڑھنے کے قائل ہیں، وہ ان احادیث کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قراءت کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے ہوتی تھی نہ کہ کسی اور سورت سے اور بقول ان کے «بسم الله» ہر سورت کا جز ہے۔ مگر دلائل کو جمع کیا جائے تو ان سے «بسم الله» کو خامو شی سے پڑھنے کی جانب راحج ثابت ہوتی ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ حضرات بسم اللہ جہراً نہ پڑھا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري۔ حديث نمبر 743 وصحيح مسلم حديث 399۔ ومسند احمد 255/3۔ 298]
➋ ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» تین یا چار رکعت والی نماز میں ہے، مگر وتر کے لئے بصراحت ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تین یا پانچ رکعت وتر ایک ہی سلام سے پڑھتے۔ تو درمیان میں کوئی «التحيات» تشہد نہ پڑھتے، صرف آخری رکعت میں پڑھتے تھے۔
شیطان کی چوکڑی سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے سرین کو زمین پر رکھ لے، پنڈلیاں کھڑی کر لے اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لے، یہ ناجائز ہے۔ مگر «اقعاء» کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے سرین کو اپنی ایڑیوں پر رکھے، جبکہ پاؤں پنجوں پر کھڑے کیے ہوں۔ تو سجدوں کے درمیان یہ صورت جائز ہے۔
درندوں کی طرح بیٹھنا اس سے مراد یہ ہے کہ سجدے میں اپنے ہاتھ زمین پر کہنی تک لمبے بچھا لے جیسے کے درندے بیٹھتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 783