سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
132. باب تَخْفِيفِ الأُخْرَيَيْنِ
باب: بعد کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 803
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبِي عَوْنٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ: قَدْ شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي الصَّلَاةِ، قَالَ:" أَمَّا أَنَا فَأَمُدُّ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، وَلَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 95 (755)، 103 (770)، صحیح مسلم/الصلاة 34 (453)، سنن النسائی/الافتتاح 74 (1003)، (تحفة الأشراف: 3847)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/175، 176، 179، 180) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 755  
´امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا`
«. . . شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 755]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق لفظوں سے یہ اشارہ فرمایا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا امام، مقتدی، حضر، سفر چاہے جہری نماز ہو یا سری نماز ہو سب میں پڑھنا واجب ہے دلیل کے طور پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ تھے:
➊ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنی نماز میں کوتاہی نہیں کرتا میں ان کو اسی طرح نماز پڑھاتا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے۔
➋ عشاء کی نماز میں پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتا اور بعد کی دو رکعتوں کو ہلکا کرتا۔
یہاں سے باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء وغیرہ کی نماز میں سورة الفاتحہ پڑھتے اور صحابی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں وہی کرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یعنی وہ بھی سورة الفاتحہ پڑھتے اور اس کو بھی یاد رکھا جائے کہ عشاء کی نماز جہری ہے جب اس میں سورة الفاتحہ پڑھنا ثابت ہوا تو سری نماز میں سورة الفاتحہ پڑھنا بالاولیٰ ثابت ہو گا، اس کے علاوہ سورة الفاتحہ پڑھنے کے حکم کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ مطلق لے رہے ہیں کہ ہر نماز میں چاہے وہ مقتدی ہو یا امام لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث سے امام کا چاروں رکعتوں میں قرأت کرنے کا ثبوت موجود ہے۔
➋ خصوصاً سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا چاہے وہ نماز جہری ہو یا سری
➌ کوفہ والوں کی شرارتیں اور بے ایمانی کے معاملات مخفی نہیں۔ صحابی رسول سیدنا سعید رضی اللہ عنہ پر انہوں نے الزامات لگائے جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
➍ سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی تھی:
«اللهم استجب لسعد» [رواه الطبراني بطريق الشعبي]
اے اللہ! سعد جب دعا کرے تو اس کی دعا قبول فرما۔
➎ حضر اور سفر میں قرأت کا کرنا مشروع ہے۔
➏ اگر کسی سردار کی خلیفہ کے پاس شکایت آئے تو اسے معزول کرنا جائز ہے۔
➐ اس حدیث سے تحقیق کرنا بھی ثابت ہوا کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ جہاں کے امیر تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو بھیج کر تحقیق کروائی۔
➑ ظالم پر بددعا کرنا بھی جائز ہوا جب کہ اس سے دین میں نقصان ہو۔
اسی باب کے ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث کا ذکر فرمایا:دیکھئیے: حدیث صحیح بخاری [757]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 191   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 803  
´بعد کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 803]
803۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں قرأت واجب ہے۔ دیکھئے: «باب وجوب القرأت الامام والماموم فى الصلواة كلها . . . الخ» [سنن ابی داود حديث 755]
اس سے پچھلی دو رکعتو ں میں پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں تخفیف کا اثبات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 803