صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
34. بَابُ لاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ:
باب: زکوٰۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا ہوں وہ اکٹھے نہ کئے جائیں اور جو اکٹھے ہوں وہ جدا جدا نہ کیے جائیں۔
وَيُذْكَرُ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُهُ.
‏‏‏‏ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 1450
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہی چیز لکھی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری قرار دیا تھا۔ یہ کہ زکوٰۃ (کی زیادتی) کے خوف سے جدا جدا مال کو یکجا اور یکجا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1450  
1450. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1450]
حدیث حاشیہ:
سالم کی روایت کو امام احمد اور ابویعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے۔
امام مالک نے مؤطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے۔
مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوٰۃ کی واجب ہے۔
زکوٰۃ لینے والا جب آیا تو تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں۔
اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی۔
اسی طرح دوآدمیوں کی شرکت کے مال میں مثلاً دو سوبکریاں ہوں تو تین بکریاں زکوٰۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوٰۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کردیں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی۔
اس سے منع فرمایا۔
کیونکہ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے‘ معاذ اللہ۔
وہ تو سب جانتا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1450   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1450  
1450. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1450]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں مذکور صورتوں کو سمجھنے کے لیے حیوانات سے زکاۃ کا نصاب پیش نظر ہونا چاہیے۔
سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بکریوں کا نصاب اور اس سے شرح زکاۃ ذکر کرتے ہیں:
٭ 1 تا 39 بکریوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔
٭ 40 تا 120 بکریوں میں ایک بکری۔
٭ 121 تا 200 بکریوں میں دو بکریاں۔
٭201 تا 300 بکریوں میں تین بکریاں۔
٭ 301 تا 400 بکریوں میں چار بکریاں۔
٭ 401 تا 500 بکریوں میں پانچ بکریاں۔
اس طرح آگے ہر سو کی تعداد پر ایک بکری مزید بطور زکاۃ دینا ہو گی۔
ممنوع صورتیں مالک نصاب اور صدقہ لینے والے کے اعتبار سے چار ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ صدقے سے بچنے یا اسے کم مقدار میں ادا کرنے یا زیادہ لینے کے لیے مال زکاۃ میں جمع و تفریق نہ کی جائے۔
تفصیل حسب ذیل ہے:
مالک نصاب کے اعتبار سے صدقہ وصول کرنے والے کے اعتبار سے شراکت کی بنیاد پر دو شخصوں کی پچاس بکریاں ہیں، جن میں ایک بکری بطور زکاۃ دینا پڑتی ہے۔
جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ پچیس، پچیس بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ کسی کو زکاۃ نہ دینا پڑے۔
یا دو آدمیوں کی بطور شراکت دو سو پچاس بکریاں ہیں، ان میں تین بکریاں زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ کے وقت اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ دو بکریاں زکاۃ دی جائے۔
دو حضرات کی الگ الگ چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔
نصاب کے اعتبار سے ہر ایک پر ایک ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔
جب زکاۃ لینے والا آئے تو انہیں یکجا کر لیا جائے۔
اس صورت میں انہیں ایک ہی بکری دینا پڑے گی۔
دو آدمیوں کی الگ الگ پچیس پچیس بکریاں ہیں۔
ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں لیکن صدقہ لینے والا انہیں یکجا کر کے ان سے ایک بکری وصول کر لے۔
دو آدمیوں کی سو بکریاں ہیں، ان پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے لیکن صدقہ لینے والا انہیں الگ الگ کر دے اس طرح ایک کی پچاس بکریوں پر ایک اور دوسرے کی پچاس پر بھی ایک بکری وصول کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے صدقے سے بچنے یا زیادہ وصول کرنے کے پیش نظر اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک فریب اور ناجائز حیلہ گری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1450