صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
35. بَابُ مَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ:
باب: اگر دو آدمی ساجھی ہوں تو زکوٰۃ کا خرچہ حساب سے برابر برابر ایک دوسرے سے لین دین کر لیں۔
وَقَالَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ: إِذَا عَلِمَ الْخَلِيطَانِ أَمْوَالَهُمَا فَلَا يُجْمَعُ مَالُهُمَا , وَقَالَ سُفْيَانُ: لَا يَجِبُ حَتَّى يَتِمَّ لِهَذَا أَرْبَعُونَ شَاةً وَلِهَذَا أَرْبَعُونَ شَاةً.
اور طاؤس اور عطاء رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب دو شریکوں کے جانور الگ الگ ہوں ‘ اپنے اپنے جانوروں کو پہچانتے ہوں تو ان کو اکٹھا نہ کریں اور سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہو سکتی کہ دونوں شریکوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں نہ ہو جائیں۔
حدیث نمبر: 1451
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرض زکوٰۃ میں وہی بات لکھی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی اس میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ جب دو شریک ہوں تو وہ اپنا حساب برابر کر لیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1451  
1451. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے لیے وہ احکام زکوٰۃ لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ)جو مال دو شریکوں کااکٹھا ہوتو وہ زکوٰۃ کی رقم بقدر حصہ برابر برابر ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1451]
حدیث حاشیہ:
عطا کے قول کو ابوعبید نے کتاب الاموال میں وصل کیا ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جدا جدا رہنے دیں گے اور اگر ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہوگا تو اس میں سے زکوٰۃ لیں گے ورنہ نہ لیں گے۔
مثلاً دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں مگر ہر شریک کو اپنی اپنی بیس بکریاں علیحدہ اور معین طور سے معلوم ہیں تو کسی پر زکوٰۃ نہ ہوگی اور زکوٰۃ لینے والے کو یہ نہیں پہنچتا کہ دونوں کے جانور ایک جگہ کرکے ان کو چالیس بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکوٰۃ کی لے۔
اور سفیان نے جو کہا امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔
لیکن امام احمد اور شافعی اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ جب دونوں شریکوں کے جانور مل کر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ لی جائے گی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1451   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1451  
1451. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے لیے وہ احکام زکوٰۃ لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ)جو مال دو شریکوں کااکٹھا ہوتو وہ زکوٰۃ کی رقم بقدر حصہ برابر برابر ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1451]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ذکر کردہ صورت کی وضاحت یہ ہے کہ اگر دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں تو ایک بکری بطور زکاۃ دینی ہو گی، اب جس کے مال سے صدقہ وصول کرنے والا بکری لے گیا ہے دوسرا اسے اس کی نصف قیمت ادا کرے گا تاکہ حساب برابر ہو جائے، اگر ایک کی دس اور دوسرے کی تیس بکریاں ہیں تو دس والے کو 1/4 اور تیس والے کو 3/4 قیمت ادا کرنا ہو گی، یعنی زکاۃ بقدر حصہ دینی ہو گی، مثلا:
دو شراکت داروں کی ایک سو پچاس بکریاں ہیں ان میں سے ایک کی سو اور دوسرے کی پچاس ہیں۔
جب زکاۃ لینے والا آیا تو وہ سو بکریوں والے سے دو بکریاں زکاۃ واجبہ کے طور پر لے گیا تو اب سو بکریوں والا پچاس بکریوں والے سے ان کی مجموعی قیمت کا 1/3 وصول کرے گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1451