سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
146. باب مَا يَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
باب: جب آدمی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟
حدیث نمبر: 849
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:" لَا يَقُولُ الْقَوْمُ خَلْفَ الْإِمَامِ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَلَكِنْ يَقُولُونَ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ".
عامر شعبی کہتے ہیں`: لوگ امام کے پیچھے: «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں، بلکہ «ربنا لك الحمد» کہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12568) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نماز کی تعلیم سے متعلق «مسئ صلاۃ» کی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پیٹھ اوپر کرتے ہوئے: «سمع الله لمن حمده» پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کسی آدمی کی نماز پوری نہیں ہوتی حتی کہ وہ یہ اور یہ کرے، اس حدیث میں کہ پھر رکوع کرے پھر: «سمع الله لمن حمده» کہے حتی کہ اچھی طرح کھڑا ہو جائے (ابوداود)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت قیام میں «ربنا ولك الحمد» پڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم امام اور مقتدی سب کو یہ فرما کر دیا کہ: «صلوا كما رأيتموني أصلي» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: امام کو اس کی اقتداء ہی کے لئے بنایا گیا ہے، فرمایا: اور جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو «اللہم ربنا ولک الحمد» کہو، اور اس کی تعلیل ایک دوسری حدیث میں یوں کی ہے کہ جس آدمی کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہو گیا تو اس کے ماضی کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اس تفصیل کے مطابق امام اور مقتدی سب کو دونوں دعا پڑھنی چاہئے، بعض ائمہ جیسے شعبی کا مذہب ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں صرف «ربنا ولك الحمد» پر اکتفا کریں۔

قال الشيخ الألباني: حسن مقطوع
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 849  
´جب آدمی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
عامر شعبی کہتے ہیں: لوگ امام کے پیچھے: «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں، بلکہ «ربنا لك الحمد» کہیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 849]
849۔ اردو حاشیہ:
«تسميع» «سمع الله لمن حمده» کہنا، تحمید «ربنا لك الحمد» کہنا اور دیگر دعاؤں میں منفرد امام اور مقتدی سب ہی شریک ہوں، احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ امام شافعی، مالک، عطا، ابوداؤد، ابوبردہ، محمد بن سیرین، اسحاق اور داؤد کا میلان اسی طرف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الاوطار باب مايقول فى رفعه من الركوع، بعد انتصابه 279/2]
جب کہ کچھ دوسری طرف بھی گئے ہیں، جیسے کہ امام شعبی کا یہ قول بیان ہوا ہے۔ پہلی صورت میں ان شاء اللہ راحج ہے۔
➋ چاہیے کہ نوخیز بچوں اور طلبہ علم کو ان دعاؤں کے پڑھنے کا عا دی بنایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 849