صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
40. بَابُ أَخْذِ الْعَنَاقِ فِي الصَّدَقَةِ:
باب: بکری کا بچہ زکوٰۃ میں لینا۔
حدیث نمبر: 1457
قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ".
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جہاد کے لیے «شرح صدر» عطا فرمایا تھا اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہیں کا حق تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1457  
1457. حضرت عمر ؓ نے فرمایا:بات صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جنگ کے لیے حضرت ابو بکر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے پہچان لیا کہ حق یہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1457]
حدیث حاشیہ:
بکری کا بچہ اس وقت زکوٰۃ میں لیا جائے گا کہ تحصیلدار مناسب سمجھے یا کسی شخص کے پاس نرے بچے ہی بچے رہ جائیں۔
حضرت امام بخاری نے حدیث عنوان میں یہ اشارہ حضرت صدیق اکبر ؓ کے ان لفظوں سے نکالا کہ اگر یہ لوگ بکری کا ایک بچہ جسے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اس سے بھی انکار کریں گے تو میں ان پر جہاد کروں گا۔
پہلے پہل حضرت عمر ؓ کو ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہ دیتے تھے لڑنے میں تامل ہوا کیونکہ وہ کلمہ گو تھے۔
لیکن حضرت ابوبکر ؓ کو ان سے زیادہ علم تھا۔
آخر میں حضرت عمر ؓ بھی ان سے متفق ہوگئے۔
اس حدیث سے یہ صاف نکلتا ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے آدمی کا اسلام پورا نہیں ہوتا۔
جب تک اسلام کے تمام اصول اور قطعی فرائض کو نہ مانے۔
اگر اسلام کے ایک قطعی فرض کا کوئی انکار کرے‘ جیسے نماز یا روزہ یا زکوٰۃ یا جہاد یا حج تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اس پر جہاد کرنا درست ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1457   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1457  
1457. حضرت عمر ؓ نے فرمایا:بات صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جنگ کے لیے حضرت ابو بکر ؓ کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے پہچان لیا کہ حق یہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1457]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکری کا وہ بچہ جو چار ماہ کا ہو اور دودھ نہ پیتا ہو بلکہ چارا کھاتا ہو، اگر وہ نر ہے تو اسے جَدی اور اگر مادہ ہے تو اسے "عناق" کہا جاتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر زکاۃ وصول کرنے والا چاہے تو بکری کا بچہ لے سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی عیب نہیں۔
عیب دار جانور سے یہ کہیں بہتر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان میں إعطاء کے بجائے لفظ أخذ استعمال کیا ہے، یعنی ایسا کرنا صدقہ لینے والے کی صوابدید پر موقوف ہے۔
(فتح الباري: 405/3) (3)
فقہاء نے اس کی صورت یہ لکھی ہے کہ ایک آدمی کے پاس صرف چالیس چار ماہ کے بچے ہیں اور ان میں زکاۃ واجب ہو تو ان سے ایک بچہ وصول کر لیا جائے گا۔
زکاۃ واجب ہونے کی صورت اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس دو سو بکریاں تھیں جنہوں نے بچے جنم دیے، کسی آفت کی وجہ سے وہ بکریاں مر گئیں، صرف چار ماہ کے چالیس بچے رہ گئے چونکہ ابتدائے سال سے ان پر زکاۃ واجب ہو چکی تھی کیونکہ ایسی صورت میں ان پر سال گزرنا ضروری نہیں تھا، اس لیے کہ ان کے لیے ماؤں کا حکم ہوتا ہے، لہذا ان سے ایک بچہ وصول کر لیا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1457