سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
184. باب التَّشَهُّدِ
باب: تشہد (التحیات) کا بیان۔
حدیث نمبر: 972
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، فَلَمَّا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أُقِرَّتِ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ أَنْتَ قُلْتَهَا، قَالَ: مَا قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَعَلَّمَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ:"إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُحِبُّكُمُ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ. فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، لَمْ يَقُلْ أَحْمَدُ: وَبَرَكَاتُهُ، وَلَا قَالَ: وَأَشْهَدُ، قَالَ: وَأَنَّ مُحَمَّدًا.
حطان بن عبداللہ رقاشی کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ اخیر نماز میں بیٹھنے لگے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: نماز نیکی اور پاکی کے ساتھ مقرر کی گئی ہے تو جب ابوموسیٰ اشعری نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا (ابھی) تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: تو لوگ خاموش رہے، پھر انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: لوگ پھر خاموش رہے تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا: حطان! شاید تم نے یہ بات کہی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نہیں کہی ہے اور میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ مجھے ہی سزا نہ دے ڈالیں۔ راوی کہتے ہیں: پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: میں نے کہی ہے اور میری نیت خیر ہی کی تھی، اس پر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم اپنی نماز میں کیا کہو؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہم کو سکھایا اور ہمیں ہمارا طریقہ بتایا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی اور فرمایا: جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا ۱؎ اور جب وہ «الله أكبر» کہے اور رکوع کرے تو تم بھی «الله أكبر» کہو اور رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کے برابر ہو گیا ۲؎ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا لك الحمد» کہو، اللہ تمہاری سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی ارشاد فرمایا ہے «سمع الله لمن حمده» یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اور جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہ اس کے برابر ہو جائے گا، پھر جب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تو اس کی سب سے پہلی بات یہ کہے: «التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» آداب، بندگیاں، پاکیزہ خیرات، اور صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ احمد نے اپنی روایت میں: «وبركاته» کا لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی «أشهد» کہا بلکہ «وأن محمدا» کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصلاة 16 (404)، سنن النسائی/الإمامة 38 (831)، والتطبیق 23 (1065)، 101 (1173)، والسھو 44 (1281)، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة 24 (901)، (تحفة الأشراف: 8987)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/401، 405، 409)، سنن الدارمی/الصلاة 71 (1351) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎:مسلم کی روایت میں «يجبكم» ہے یعنی:اللہ تمہاری دعا قبول کر لے گا۔
۲؎: یعنی امام تم سے جتنا پہلے رکوع میں گیا اتنا ہی پہلے وہ رکوع سے اٹھ گیا اس طرح تمہاری اور امام کی نماز برابر ہو گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1065  
´ «ربنا ولک الحمد» کہنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، اور ہمیں ہمارے طریقے بتائے، اور ہماری نماز سکھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں سیدھی کرو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرے، اور جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے، تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا، اور جب وہ اللہ اکبر کہے، اور رکوع کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو، امام تم سے پہلے رکوع کرے گا، اور تم سے پہلے رکوع سے سر بھی اٹھائے گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ادھر کی کمی ادھر پوری ہو جائے گی، اور جب وہ «سمع اللہ لمن حمده» کہے، تو تم «اللہم ربنا ولك الحمد» کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری پکار سن لے گا ؛ کیونکہ اللہ نے اپنے بنی کی زبان سے فرمایا ہے: اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی، تو جب وہ اللہ اکبر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور سجدہ کرو، امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا، اور تم سے پہلے سجدہ سے سر بھی اٹھائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ادھر کی کمی ادھر پوری ہو جائے گی، جب وہ قعدے میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کی پہلی دعا یہ ہو: «التحيات الطيبات الصلوات لله سلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبركاته سلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» آداب بندگیاں، پاکیزہ خیراتیں، اور صلاتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے رسول! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں یہ سات کلمے ۱؎ ہیں اور یہ نماز کا سلام ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1065]
1065۔ اردو حاشیہ:
آمین کہو احناف کہتے ہیں آہستہ کہنی چاہیے کیونکہ یہ دعا ہے اور دعا خفیہ ہونی چاہیے۔ مگر تعجب ہے کہ اصل دعا سورۂ فاتحہ کا آخری حصہ ہے (آمین تو تتمہ ہے) وہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے مگر تتمۂ دعا آہستہ ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ ظاہر بات ہے کہ دعا بلند آواز سے ہو تو آمین بھی بلند آواز سے ہونی چاہیے، اسی لیے جب نماز کے علاوہ دعا کی جاتی ہے تو آمین اونچی کہی جاتی ہے بلکہ زیادہ اونچی کہی جاتی ہے۔ کیا اس وقت وہ دعا نہیں ہوتی؟ صرف نماز ہی میں دعا ہوتی ہے؟
بدلے میں ہے یعنی وہ تم سے پہلے رکوع میں جاتا ہے، اٹھتا بھی اتنی دیر پہلے ہے اور تم جتنی دیر بعد رکوع میں جاتے ہو، اٹھتے بھی اتنی دیر بعد میں ہو، لہٰذا تمھارا رکوع اس کے رکوع کے برابر ہے۔
«التَّحِيَّاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ» تحیۃ کے لغوی معنیٰ ادب و سلام ہیں۔ کسی کو زندگی کی دعا دیتے وقت کہتے ہیں! «حیاك اللہ» اللہ آپ کو تادیر زندہ و سلامت رکھے۔ علاوہ ازیں اس کے معنیٰ عظمت و بزرگی، بادشاہت، دوام و بقا اور زندگی بھی کیے گئے ہیں، نیز «التَّحِيَّاتُ» سے قولی عبادات بھی مراد لی گئی ہیں۔ «الصَّلَوَاتُ» صلاۃ کے معنیٰ دعا یا نماز ہیں۔ اس سے یہاں مراد نماز پنجگانہ یا تمام نمازیں یا عبادات فعلیہ ہیں۔ «الطَّيِّبَاتُ» ہر اچھی بات اور عمدہ کلام کو کہتے ہیں، مثلاً: اللہ کی حمد و ثنا، ذکر الہٰی اور اقوال صالحہ وغیرہ۔ یہاں عام اعمال صالحہ اور مالی عبادات بھی مراد ہو سکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔
➍ آپ نے تشہد سے آگے ذکر نہیں فرمایا؎ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ بس اتنا ہی فرض یا واجب ہے۔ اس سے زائد درود شریف اور دعا واجب نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صلاۃ و سلام کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ مذکورہ تشہد میں سلام تو ہے، صلاۃ نہیں۔ مساوی حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بعد صلاۃ (درود) بھی واجب ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے محبت و شفقت اور شفاعت کبریٰ متقاضی ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنی نماز ہی میں امت رسولِ رؤف و رحیم کا حق درود کی صورت میں ادا کرے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔
سات کلمات اس طرح ہیں:
➊ التَّحِيَّاتُ
➋ الصَّلَوَاتُ
➌ الطَّيِّبَاتُ
➌ سَلَامٌ عَلَيْ النبی
➎ سَلَامٌ عَلَي الصَّالِحِينَ
➏ شھادت توحید
➐ شہادت رسالت۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1065