سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
192. باب الرَّدِّ عَلَى الإِمَامِ
باب: امام کو سلام کا جواب دینا۔
حدیث نمبر: 1001
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ أَبُو الْجَمَاهِرِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ:" أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَرُدَّ عَلَى الْإِمَامِ، وَأَنْ نَتَحَابَّ، وَأَنْ يُسَلِّمَ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امام کے سلام کا جواب دینے اور آپس میں دوستی رکھنے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 30 (922)، (تحفة الأشراف: 4597) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے روای سعید شامی ضعیف ہیں اور قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں نیز: حسن بصری کا سمرة سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1001  
´امام کو سلام کا جواب دینا۔`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امام کے سلام کا جواب دینے اور آپس میں دوستی رکھنے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1001]
1001۔ اردو حاشیہ:
امام کو سلام کا جواب دیں۔ کا مطلب ہے کہ مقتدی سلام پھیرتے وقت امام کو سلام کا جواب دینے کی نیت کریں۔ لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ جس سے کسی حکم کا اثبات نہیں ہو سکتا۔ تاہم اس کے اگلے حصے میں باہم محبت رکھنے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا جو حکم ہے، وہ صحیح ہے کیونکہ یہ دونوں باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1001   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث922  
´امام کے سلام کا جواب دینے کا بیان۔`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے اماموں کو اور باہم ایک دوسرے کو سلام کریں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 922]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہ دونوں روایات ضعیف ہیں۔
اس لئے ان سے جواب دینے کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 922