سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة -- ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
206. باب كَيْفَ الاِنْصِرَافُ مِنَ الصَّلاَةِ
باب: نماز سے فارغ ہو کر کس طرف سے پلٹنا چاہئے؟
حدیث نمبر: 1042
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ نَصِيبًا لِلشَّيْطَانِ مِنْ صَلَاتِهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَكْثَرُ مَا يَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِهِ". قَالَ عُمَارَةُ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ بَعْدُ، فَرَأَيْتُ مَنَازِلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَسَارِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 159 (852)، صحیح مسلم/المسافرین 7 (707)، سنن النسائی/السھو 100 (1361)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 33 (930)، (تحفة الأشراف: 9177)، و قد أخرجہ: مسند احمد (1/383، 429، 464)، سنن الدارمی/الصلاة 89 (1390) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے آپ کے مصلیٰ سے (بحالت نماز) بائیں جانب پڑتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بائیں جانب مڑتے اور اٹھ کر اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله عمارة أتيت
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1042  
´نماز سے فارغ ہو کر کس طرف سے پلٹنا چاہئے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1042]
1042۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہا کا استشہاد یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کے بعد اذکار وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو بائیں جانب ہی جانا ہوتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًاپنے بائیں جانب سے ہی اپنا منہ موڑتے رہے ہوں گے۔
➋ بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت کے کسی ایک ہی انداز میں اس قدر اصرار کے دوسرے سے اعراض یا اس کی تکذیب سمجھی جائے۔ دین میں بےحد برا عمل ہے، گویا شیطان کا حصہ ملانا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1042   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث914  
´سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 914]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
نماز سے فارغ ہونے کا طریقہ سلام پھیرنا ہے۔
جیسے کہ حدیث 275 اور 276 میں بیان ہوا ہے۔

(2)
سلام پھیرنے کے مختلف طریقے وارد ہیں۔
مثلاً
(الف)
السلام و علیکم ورحمة اللہ۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ (جیسے حدیث 916 میں آرہا ہے۔)

(ب)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔
  السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ (بلوغ المرام، لإبن حجر، الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، حدیث: 253)

(ج)
  صرف ایک سلام کےساتھ نماز سے فارغ ہونا بھی درست ہے۔
ایک سلام کہتے ہوئے تھوڑا سا دایئں طرف منہ کرنا چاہیے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، باب: 106، حدیث: 296)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 914   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 295  
´نماز میں سلام پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں «السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله» کہہ کر سلام پھیرتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 295]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے،
ابو داؤد کی روایت میں ((حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ)) کا اضافہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 295