سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة -- ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
216. باب التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ، فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ
باب: سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1060
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ نَزَلَ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَأَمَرَ الْمُنَادِيَ فَنَادَى أَنِ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ. قَالَ أَيُّوبُ، وَحَدَّثَنَا نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ مَطِيرَةٌ أَمَرَ الْمُنَادِيَ فَنَادَى الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ".
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اور اس نے آواز لگائی: لوگو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں: اور ہم سے نافع نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ «الصلاة في الرحال» لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو کا اعلان کرتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 35 (937)، (تحفة الأشراف: 7550)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 17 (632)، 40 (666)، صحیح مسلم/المسافرین 3 (697)، سنن النسائی/الأذان 19 (655)، موطا امام مالک/الصلاة 2(10)، مسند احمد (2/4، 10، 53، 63)، سنن الدارمی/الصلاة 55 (1311) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 75  
´دوران بارش اذان کیسے کہی جائے`
«. . . وبه: ان ابن عمر اذن بالصلاة فى ليلة ذات برد وريح، فقال: الا صلوا فى الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامر المؤذن إذا كانت ليلة باردة ذات مطر، يقول: الا صلوا فى الرحال . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (نافع تابعی سے) روایت ہے کہ ایک ٹھنڈی اور (تیز) ہوا والی رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی تو فرمایا: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں (گھروں) میں نماز پڑھو، پھر فرمایا: جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ کہے: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 75]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 666، ومسلم 697، من حديث مالك به]
تفقه:
① جب بارش ہو رہی ہو یا سخت سرد ہوا چل رہی ہو تو نماز باجماعت کے لئے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔
② بارش والے دن اذان کے بعد یہ اعلان کرنا جائز ہے کہ «صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ» لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔
③ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سفر میں اقامت کے علاوہ کچھ (اذان) نہیں کہتے تھے سواۓ صبح کے، وہ صبح کی اذان اور اقامت دونوں کہتے تھے اور فرماتے: اذان تو اس امام کے لئے ہوتی ہے جس کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ [الموطا 73/1 ح188، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ اذان کے بغیر اور صرف اقامت کے ساتھ بھی نماز باجماعت ہو جاتی ہے۔ اگر شرعی عذر نہ ہو تو سفر میں بھی اذان بہتر ہے۔ شہر اور گاؤں میں اذان اسلام کا شعار ہے۔
④ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اگر تم سفر میں ہو تو تمہاری مرضی ہے کہ اذان اور اقامت کہو یا صرف اقامت کہہ دو اور اذان نہ دو۔ [الموطأ 1/73 ح156، وسنده صحيح]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سواری پر اذان دینا جائز ہے۔ [الموطأ 74/1]
➎ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص بیاباں علاقے میں نماز پڑھے تو اس کی دائیں طرف ایک فرشتہ اور بائیں طرف ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے۔ اگر وہ اذان اور اقامت کہے یا (صرف) اقامت کہے تو پہاڑوں جتنے (بہت زیادہ) فرشتے اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ [الموطا 74/1 ح 157، وسنده صحيح]
➏ ابراہیم نخعی نے کہا: بغیر وضو اذان دینا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 211/1 ح 2188، 2189 وهو صحيح]
⑦ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز ہو چکی تھی تو وہ اقامت کہنے لگا-اسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اقامت نہ کہو کیونکہ ہم نے اقامت کہہ دی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/1ح2305وسندحسن]
⑧ مشہور تابعی اور مفسرِ قرآن امام مجاہد نے فرمایا: اگر تم اپنے گھر میں اقامت سن لو اور چاہو تو تمہارے لئے یہ کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 1/220 ح2296 وسنده حسن]
معلوم ہوا کہ انفرادی نماز اذان اور اقامت کے بغیر بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 198   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 655  
´بارش کی رات میں جماعت میں نہ آنے کے لیے اذان کے طریقہ کا بیان۔`
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ایک سرد اور ہوا والی رات میں نماز کے لیے اذان دی، تو انہوں نے کہا: «ألا صلوا في الرحال» لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرد بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو حکم دیتے تو وہ کہتا: «ألا صلوا في الرحال» لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 655]
655 ۔ اردو حاشیہ: گھروں میں نماز پڑھ لو۔ کے اعلان سے معلوم ہوا کہ بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ اعلان کر دینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرنے کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی رخصت عنایت فرما دی ہے، پھر جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مفہوم «مِنْ غيرِ خوفٍ ولا مطَرٍ» اور بعض صحابہ سے ایسے موقع پر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جس سے اس کے جواز میں شک نہیں رہتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے موقع پر جمع کرنے کی بجائے رخصت کے اعلان ہی کا ثبوت ملتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 655   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1060  
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اور اس نے آواز لگائی: لوگو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں: اور ہم سے نافع نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ «الصلاة في الرحال» لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو کا اعلان کرتا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1060]
1060. اردو حاشیہ:
ایسا اعلان کر دینا مسنون ہے اور نمازیوں کے لئے مسجد میں نہ آنے کی رخصت ہے، لیکن اگر کوئی آنا چاہے تو اس کے لئے فضیلت ہے۔ جیسے آئندہ احادیث سے واضح ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1060   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1061  
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وادی ضجنان میں نماز کے لیے اذان دی، پھر اعلان کیا کہ لوگو! تم لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، اس میں ہے کہ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کی کہ آپ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں منادی کو حکم فرماتے تو وہ نماز کے لیے اذان دیتا پھر وہ اعلان کرتا کہ لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے روایت کیا ہے اس میں «في الليلة الباردة وفي الليلة المطيرة في السفر» کے بجائے «في السفر في الليلة القرة أو المطيرة» کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1061]
1061۔ اردو حاشیہ:
اکثر روایات میں گھروں میں نماز پڑھنے کے اعلان کا تعلق سفر سے بتلایا گیا ہے، لیکن بعض روایات میں مطلقاً بھی آیا ہے۔ اس اعتبار سے اس اعلان کا تعلق سفر سے نہیں ہے بلکہ مطلق ہے۔ یعنی ہر جگہ حسب ضرورت اذان میں مذکورہ الفاظ کے ذریعے سے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1061