صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
50. بَابُ الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
باب: سوال سے بچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1469
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ , فَقَالَ: مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ (صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 615  
´مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے`
«. . . عن ابى سعيد الخدري ان ناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاهم ثم سالوه فاعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما اعطي احد عطاء هو خير واوسع من الصبر . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 615]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1469، ومسلم 1053، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سخی اور اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔
➋ مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے۔
➌ جس شخص کے پاس (ضرورت سے زائد) مال نہ ہو تو وہ مانگنے والے کے سامنے اپنا عذر بیان کر سکتا ہے۔
➍ بہترین اخلاق یہی ہے کہ ضرورت مند بھی کچھ نہ مانگے بلکہ صبر اور توکل سے ہمیشہ کام لے۔ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں کی طرف لالچ کی وجہ سے دیکھتے رہنا اور بغیر شرعی عذر کے مانگنا اچھی روش نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [ح: 174]
➎ علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمہ اللہ نے فرمایا: «ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدًا بعفو إلا عزًا وما تواضع عبد إلا رفعه الله» صدقہ مال سے کوئی کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بندے کی عزت بہت زیادہ کرتا ہے اور جو بندہ تواضع (عاجزی وانکساری) کرتا ہے تو اللہ اس کا مرتبہ بلند کردیتا ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/1000 ح1949ب وسنده صحيح]
یہ روایت (اثر) صحیح مسلم میں «العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي هريرة» کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی موجود ہے۔ [صحیح مسلم 2588 وترقيم دارالسلام: 6592]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 78   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2024  
´صبر کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1628  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا، میں نے (اپنے جی میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے)، چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1628]
1628. اردو حاشیہ: (الحاف) مانگنے کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جب مانگنے والا بے جا اصرار کرے۔اور چمٹ کر مانگے۔باوقار فقراء کی صفت قرآن مجید ن یہ بتائی ہے کہ <قرآن> (يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَاف)(البقرہ 237) بے خبر لوگ ان کو غنی سمجھتے ہیں۔ آپ ان کو ان کی علامات سے پہچانتے ہیں۔یہ لوگوں سے لپٹ کر (اصرار سے) سوال نہیں کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1628   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1469  
1469. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے (مال کا) سوال کیا تو آپ نے انھیں دے دیا، انھوں نے دوبارہ مانگا تو آپ نے پھر دے دیا، انھوں نےپھر دست سوال پھیلایا تو آپ نے پھر فرمادیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا:میرے پاس جو مال ہو گا اسے تم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھوں گا لیکن یاد رکھو! جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے فقرو فاقہ سے بچا ئے گا، اور جو شخص (دنیا کے مال سے) بے نیاز رہے گا اللہ اسے غنی کردے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ اسے صابر بنادے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1469]
حدیث حاشیہ:
شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔
مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔
ان کے لیے فرمایا:
﴿وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنهَر﴾ یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو۔
بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔
حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری ؓ ہیں۔
جن کا نام سعد بن مالک ہے۔
اور یہ انصاری ہیں۔
جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔
حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے۔
84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1469   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1469  
1469. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، کہ انصار میں سے چند لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے (مال کا) سوال کیا تو آپ نے انھیں دے دیا، انھوں نے دوبارہ مانگا تو آپ نے پھر دے دیا، انھوں نےپھر دست سوال پھیلایا تو آپ نے پھر فرمادیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہوگیا۔ بالآخر آپ ﷺ نے فرمایا:میرے پاس جو مال ہو گا اسے تم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھوں گا لیکن یاد رکھو! جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے فقرو فاقہ سے بچا ئے گا، اور جو شخص (دنیا کے مال سے) بے نیاز رہے گا اللہ اسے غنی کردے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ اسے صابر بنادے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر کوئی وسیع تر نعمت نہیں دی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1469]
حدیث حاشیہ:
شریعت اسلامیہ کی یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ان سے سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ منع کیا ہے اور اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے باوجود بعض معذور ایسے ہیں جنہیں بغیر سوال کیے چارہ نہیں۔
ان کے متعلق قرآن کا حکم ہے کہ انہیں ڈانٹ نہیں پلانی بلکہ اگر انہیں دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو نرمی سے جواب دینا ہے۔
(2)
علامہ عینی ؒ نے سوال کی تین قسمیں ذکر کی ہیں:
٭ حرام:
یہ اس شخص کے لیے ہے جو زکاۃ سے بے نیاز ہو یا خواہ مخواہ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرے۔
٭ مکروہ:
جس کے پاس ضرورت کے لیے مال موجود ہو اور فقر کو ظاہر نہ کرے۔
٭ مباح:
جو معروف طریقے سے اپنے کسی قریبی یا دوست سے مانگتا ہے، البتہ ضرورت کے وقت اپنی جان بچانے کے لیے سوال کرنا ضروری ہے۔
حرص نفس اور سوال کے بغیر اگر کچھ مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔
(عمدةالقاري: 494/6)
اس حدیث میں سوال نہ کرنے کے تین درجے بیان ہوئے ہیں:
پہلا یہ ہے کہ انسان سوال سے پرہیز کرے، لیکن استغناء کو ظاہر نہ کرے، دوسرا یہ کہ مخلوق سے تو بے نیاز رہے، البتہ اسے کچھ دے دیا جائے تو خوشی سے قبول کرے اور تیسرا یہ ہے کہ دینے کے باوجود اسے قبول نہ کرے۔
یہ صبروثبات کا آخری درجہ ہے جو مکارم اخلاق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1469