سنن ابي داود
تفرح أبواب الجمعة -- ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل
242. باب الإِمَامِ يَتَكَلَّمُ بَعْدَ مَا يَنْزِلُ مِنَ الْمِنْبَرِ
باب: منبر سے اترنے کے بعد امام بات چیت کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1120
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَرِيرٍ هُوَ ابْنُ حَازِمٍ، لَا أَدْرِي كَيْفَ قَالَهُ مُسْلِمٌ أَوْ لَا، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْزِلُ مِنْ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فِي الْحَاجَةِ، فَيَقُومُ مَعَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْحَدِيثُ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ عَنْ ثَابِتٍ هُوَ مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (خطبہ دے کر) منبر سے اترتے تو آدمی کوئی ضرورت آپ کے سامنے رکھتا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت پوری کر لیتا، یعنی اپنی گفتگو مکمل کر لیتا، پھر آپ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں ہے، یہ جریر بن حازم کے تفردات میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 256 (الجمعة 21) (517)، سنن النسائی/الجمعة 36 (1420)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 89 (1117)، (تحفة الأشراف: 260)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 127) (ضعیف) (والصحیح ہو الحدیث رقم: 201)» ‏‏‏‏ (جریر بن حازم سے وہم ہوا ہے، اصل واقعہ عشاء کا ہے نہ کہ جمعہ کا، جیسا کہ حدیث نمبر: 201 میں ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1120  
´منبر سے اترنے کے بعد امام بات چیت کر سکتا ہے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (خطبہ دے کر) منبر سے اترتے تو آدمی کوئی ضرورت آپ کے سامنے رکھتا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت پوری کر لیتا، یعنی اپنی گفتگو مکمل کر لیتا، پھر آپ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں ہے، یہ جریر بن حازم کے تفردات میں سے ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1120]
1120۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم اس قسم کا ایک واقعہ جس میں دوران خطبہ، خطبہ چھوڑ کر سائل سے گفتگو کرنے کا ذکر ہے۔ صحیح مسلم حدیث [876] میں ہے۔ علاوہ ازیں اس قسم کا واقعہ کسی نماز کے موقع پر بھی پیش آیا تھا۔ جیسے کہ جامع ترمذی میں ہے کہ نماز کی اقامت کہہ دی گئی تو ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگا۔ حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ [ترمذي، حديث: 518، ابوداؤد، حديث: 201]
اور مسئلہ یوں ہی ہے کہ اگر امام یا کوئی اور شخص کوئی ضرورت پوری کرنا چاہے، تو کوئی حرج نہیں مگر اہل جماعت کو اذیت نہیں ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1120