سنن ابي داود
كتاب صلاة الاستسقاء -- کتاب: نماز استسقاء کے احکام ومسائل
1. باب
باب: نماز استسقا اور اس کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر: 1165
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ نَحْوَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ، قَالَ:أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: أَرْسَلَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عُقَبَةَ، قَالَ عُثْمَانُ ابْنُ عُقْبَةَ: وَكَانَ أَمِيرَ الْمَدِينَةِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَقَالَ:" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَذِّلًا مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا حَتَّى أَتَى الْمُصَلَّى، زَادَ عُثْمَانُ: فَرَقَى عَلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، وَلَمْ يَخْطُبْ خُطَبَكُمْ هَذِهِ، وَلَكِنْ لَمْ يَزَلْ فِي الدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ وَالتَّكْبِيرِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالْإِخْبَارُ لِلنُّفَيْلِيِّ، وَالصَّوَابُ ابْنُ عُقْبَةَ.
ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے ولید بن عتبہ نے (عثمان کی روایت میں ولید بن عقبہ ہے، جو مدینہ کے حاکم تھے) ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا کہ میں جا کر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقا کے بارے پوچھوں تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کے ساتھ گریہ وزاری کرتے ہوئے عید گاہ تک تشریف لائے، عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ منبر پر چڑھے، آگے دونوں راوی روایت میں متفق ہیں: آپ نے تمہارے ان خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا، گریہ وزاری اور تکبیر میں لگے رہے، پھر دو رکعتیں پڑھیں جیسے عید میں دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت نفیلی کی ہے اور صحیح ولید بن عقبہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 278 (558)، سنن النسائی/الاستسقاء 3 (1507)، سنن ابن ماجہ/إقامة 153 (1266)، (تحفة الأشراف: 5359)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/230، 269، 355) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1165  
´نماز استسقا اور اس کے احکام و مسائل۔`
ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے ولید بن عتبہ نے (عثمان کی روایت میں ولید بن عقبہ ہے، جو مدینہ کے حاکم تھے) ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا کہ میں جا کر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقا کے بارے پوچھوں تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کے ساتھ گریہ وزاری کرتے ہوئے عید گاہ تک تشریف لائے، عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ منبر پر چڑھے، آگے دونوں راوی روایت میں متفق ہیں: آپ نے تمہارے ان خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا، گریہ وزاری اور تکبیر میں لگے رہے، پھر دو رکعتیں پڑھیں جیسے عید میں دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت نفیلی کی ہے اور صحیح ولید بن عقبہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1165]
1165۔ اردو حاشیہ:
عید سے مشابہت وقت عدم اذان، عدم تکبیر، عدد رکعات اور نماز مقدم کرنے اور خطبہ موخر کرنے میں ہے استسقاء میں عید کی طرح زائد تکبیرات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1165   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1266  
´نماز استسقا کا بیان۔`
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1266]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استسقاء کا مطلب ہے پانی طلب کرنا یا پانی پلانے کی درخواست کرنا، یہ نمازایسے موقع پر اد ا کی جاتی ہے۔
جب بارش کی ضرورت ہو لیکن دن گزرتے چلے جایئں۔
اور بارش نہ ہو۔
اس صورت میں زرعی پیداوار کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے قحط کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس لئے اسے نماز استسقاء کہتے ہیں۔
یعنی بارش کی دعا کےلئے نماز پڑھنا۔

(2)
نماز استسقاء کے موقع پر بے چارگی اور مسکنت کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لئے لباس میں چال میں حرکات وسکنات میں عجزاور فروتنی کا اظہار ہونا چاہیے۔

(3)
استسقاء کی نماز دو رکعت ہے۔
اور اس کا وقت بھی سورج کے نکلنے کے بعد کا ہے۔
علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان یعنی عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے۔
اس لئے حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے عید کی نماز سے تشبیہ دی۔

(4)
تمھارے خطبے جیسا خطبہ نہیں دیا۔
اس کامطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا۔
اس کو تمہاری طرح غیر ضروری باتیں کرکے طول نہیں دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 406  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تواضع کے ساتھ سادہ لباس میں نہایت عاجزی و انکساری، بہت خشوع اور بڑی زاری اور تضرع کرتے ہوئے نماز کے لئے باہر نکلے۔ عید کی نماز کی طرح لوگوں کو دو رکعات نماز پڑھائی۔ تمہارے خطبہ کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔
اس روایت کو پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابوعوانہ اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 406»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، صلاة الاستسقاء، باب جماع أبواب صلاة الاستسقاء وتفريعها، حديث:1165، والترمذي، الجمعة، حديث:558، والنسائي، الاستسقاء، حديث:1507، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1266، وأحمد:1 /230، 269، 355، وابن حبان(الإحسان):4 /229، حديث:2851، وأبوعوانه:6 /33، القسم المفقود.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز استسقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
استسقا کے لغوی معنی ہیں: پانی کے لیے درخواست کرنا‘ دعا کرنا۔
شرعی اصطلاح کی رو سے ایک مخصوص کیفیت سے نماز پڑھنا۔
2. استسقا کی دو قسمیں ممکن ہیں: ادنیٰ اور اعلیٰ۔
ادنیٰ کی صورت یہ ہے کہ صرف دعا کی جائے اور اعلیٰ کی صورت یہ ہے کہ طلب بارش کے لیے باہر نکل کر عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کی حالت میں نماز استسقا ادا کی جائے اور خوب عاجزی کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی جائے۔
دعا کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد ہاتھوں کی پشت چہرے کی طرف کر کے دعا مانگی جائے۔
(صحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین…‘ حدیث:۸۹۶) 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دعا بھی ثابت ہے جیسا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں ایک آدمی نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے دعا فرمائی جس کے نتیجے میں بارش شروع ہوگئی اور آئندہ جمعے تک مسلسل ہوتی رہی۔
اس سے معلوم ہوا کہ خطیب خطبے کے دوران میں دعا کر سکتا ہے‘ اس وقت قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں۔
4.خطبے کے دوران میں خطیب سے گفتگو ہو سکتی ہے۔
5.خطیب دوسرے کی درخواست پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔
6.استسقا کی نماز دو رکعت ہے اور اس کا وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہے۔
علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان‘ یعنی عیدگاہ میں ادا کی جاتی ہے‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے عید کی نماز سے تشبیہ دی۔
7.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ روایت جس میں تکبیرات عیدین کی طرح پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیروں کا ذکر ہے‘ محققین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(سنن الدارقطني: ۲ / ۶۷‘ ۶۸) 8.تمھارے اس خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا‘ اسے تمھاری طرح غیر ضروری باتیں کر کے طول نہیں دیا۔
9.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں لکھا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقا ادا کرنے کے کئی طریقے منقول ہیں۔
مسنون طریقہ یہ ہے کہ سارے لوگ شہر سے یا آبادی سے باہر جمع ہوں۔
لباس پھٹا پرانا ہو‘ ڈرتے ہوئے اللہ کے حضور گریہ و زاری کریں۔
اس کے بعد امام انھیں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائے اور قراء ت بلند آواز سے کرے۔
اس کے بعد خطبہ پڑھے اور قبلہ رو ہو کر دعا مانگے۔
اس دوران میں چادر کو الٹا کرے۔
جس کا طریقہ تفصیل کے ساتھ آگے آ رہا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 406   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 558  
´نماز استسقاء کا بیان۔`
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 558]
اردو حاشہ:
1؎:
اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائد سے دو رکعتیں پڑھی جائیں گی،
جبکہ جمہور نمازِ جمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث میں ((كَمَا كَانَ يُصَلِّي فِي الْعِيدِ)) سے مراد یہ بیان کیا ہے کہ جیسے:
آبادی سے باہر جہری قراء ت سے خطبہ سے پہلے دو رکعت عید کی نماز پڑھی جاتی ہے،
اور دیگر احادیث و آثار سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے،
صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 558