سنن ابي داود
كتاب صلاة الاستسقاء -- کتاب: نماز استسقاء کے احکام ومسائل
3. باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الاِسْتِسْقَاءِ
باب: نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1170
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبِطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاستسقاء 22 (1031)، والمناقب 23 (3565)، والدعوات 23 (6341)، صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (895)، سنن النسائی/الاستسقاء 9 (1512)، وقیام اللیل 52 (1749)، سنن ابن ماجہ/إقامة 118 (1180)، (تحفة الأشراف: 1168)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/181، 282)، سنن الدارمی/الصلاة 189 (1543) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ روایت ان بہت سی روایتوں کے معارض ہے جن سے استسقا کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے (رفع بلیغ) کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ ہاتھ اتنا اونچا نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقا میں اٹھاتے تھے «حتى رأيت بياض إبطيه» کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہو رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1170  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1170]
1170۔ اردو حاشیہ:
دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، ان میں ایک استسقاء کا موقع ہے بلکہ اس موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھانے میں مبالغے سے کام لیا یعنی خوب ہاتھ اٹھائے جیسا کہ اگلی روایت میں صراحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1170   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1171  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1171]
1171۔ اردو حاشیہ:
استسقاء میں الٹے ہاتھوں سے دعا کرنا نیک فال کے طور پر ہے اور مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1174  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مر گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1174]
1174۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ میں استسقاء کی دعا کرنا بالکل بجا اور سنت ہے۔
➋ استسقاء یا دیگر اجتماعی امور کے لئے اثنائے خطبہ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 1029]
➌ انسان ازحد کمزور پیدا کیا گیا ہے، نہ خشکی و گرمی برداشت کر سکتا ہے، نہ بارش و پانی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1174   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1180  
´دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اُٹھائے جایئں لیکن سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قنوت میں ہاتھ اُٹھانا مذکور ہے۔ (السنن الکبريٰ للبہیقي: 211/2)
بعض دیگراحادیث میں اور مواقع پر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا وارد ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجھاد، باب المداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر واباحة الغنائم، حدیث: 1763، وصحیح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتین۔
۔
۔
، حدیث: 1751)

اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کی دعا میں ہاتھ زیادہ بلند کرتے تھے۔
جب کہ دوسری اوقات میں اس طرح ہاتھ بلند نہیں کیے۔
بلکہ کم بلند کئے۔

(2)
دعائے قنوت وتر میں نبی کریمﷺ نے ہاتھ اُٹھائے یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صراحت نہیں ہے البتہ دعائے قنوت نازلہ میں (جو رکوع کے بعد آپ نے مانگی ہے)
آپ ﷺ کا ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔
اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے دعا قنوت میں وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سےدعائے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے ک اثبوت ملتا ہے۔
اس لئے ہاتھ اُٹھا کردعائے قنوت پڑھنا بہتر ہے گوجواز بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1180   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 408  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بولا یا رسول اللہ! اموال (مویشی) ہلاک ہو گئے اور آمدورفت کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا فرمائی۔ «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏ یا الٰہی! بارش سے ہماری فریاد رسی فرما۔ یا الٰہی! باران رحمت سے ہماری فریاد رسی فرما۔ ساری حدیث بیان فرمائی۔ اس میں بارش کے بند کروانے کی دعا کا بھی ذکر ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 408»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، حديث:1013، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:897.»
تشریح:
1. اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم السلام بلکہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر چیز اللہ رب العالمین سے براہ راست طلب فرماتے تھے۔
بیچ میں کسی کو واسطہ یا ذریعہ بنانا صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ ورنہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوالانبیاء یا ابوالبشر یا کسی دوسرے اولوالعزم پیغمبر کا واسطہ دے کر بارش طلب فرماتے۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازخود نہیں بلکہ اللہ کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ وہ بارش برسا کر لوگوں کو قحط سالی سے نجات دے۔
3.یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مَاکَانَ وَمَا یَکُونُکا علم بھی نہیں رکھتے تھے‘ ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ قحط سالی کی وجہ سے بیرون شہر لوگوں کا کیا حال ہے۔
اس آدمی کے بتانے پر معلوم ہوا۔
4.وہ آدمی کون تھا‘ اس میں اختلاف ہے۔
کسی نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے‘ حالانکہ وہ اس وقت دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔
انداز گفتگو اور طرزکلام سے محسوس ہوتا ہے کہ سائل یقینا کوئی مسلمان تھا ورنہ آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کی طرح آپ کو مشکل کشا سمجھ کر آپ ہی سے درخواست کرتا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں قحط سالی کی مصیبت سے نجات دلا۔
بعض نے کہا: اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بارش کے لیے صرف دعا ہی فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے غالباً اسی سے استدلال کیا ہے کہ استسقا کے لیے صرف دعا کرنا سنت ہے۔
مگر دوسری احادیث سے نماز استسقا پڑھنا بھی ثابت ہے۔
5. اس سلسلے کی تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے چھ طرح مختلف اوقات میں دعا کی ہے: ٭ ایک دفعہ تو آپ لوگوں کو عیدگاہ میں لے گئے‘ نماز پڑھائی‘ خطبہ بھی دیا اور دعا بھی فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ صلاۃ الاستسقاء‘ حدیث:۱۱۷۳) ٭ ایک دفعہ خطبۂجمعہ کے دوران ہی میں منبر پر کھڑے کھڑے صرف دعا فرمائی۔
(صحیح البخاري‘ الاستسقاء‘ حدیث: ۱۰۱۴) ٭ ایک مرتبہ آپ نے باقاعدہ منبر منگوایا‘ اس پر بیٹھ کر مختصر خطبہ ارشاد فرمایا‘ دعا کی‘ پھر دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔
(سنن ابن ماجہ‘ حدیث:۱۲۷۰) ٭ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے دعا کی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۹) ٭ ایک دفعہ مسجد سے باہر نکل کر زوراء کے قریب احجار الزیت مقام میں جا کر دعا فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۸) ٭ اور ایک دفعہ کسی جنگ کے دوران میں بارش کے لیے دعا فرمائی۔
ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتخریج شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط: ۱ / ۴۳۹. ۴۴۴)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 408