صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
53. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} وَكَمِ الْغِنَى:
باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔
حدیث نمبر: 1479
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ وَلَا يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہو جائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 473  
´مسکین کون؟`
«. . . 369- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس المسكين بهذا الطواف الذى يطوف على الناس، ترده اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان، قالوا: فمن المسكين يا رسول الله؟ قال: الذي لا يجد غنى يغنيه، ولا يفطن له فيتصدق عليه، ولا يقوم فيسأل الناس. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں گھومنے والا مسکین نہیں ہے جو ایک دو نوالے اور ایک دو کھجوریں لے کر واپس چلا آتا ہے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے مال نہ ہو اور لوگوں کو اس (کی غربت) کا پتا نہ چلے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور یہ شخص اٹھ کر لوگوں سے مانگتا بھی نہیں ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 473]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1479، من حديث مالك، ومسلم 101/1039، من حديث ابي الزناد به]

تفقه:
➊ پیشہ ور بھکاری مسکین کے حکم میں نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے سائل ہیں جن کا حق ہوتا ہے۔
➋ اپنے قبیلے، محلے اور جان پہچان والوں میں ایسے آدمی تلاش کرکے خفیہ طور پر ان کی مدد کی جائے جو سفید پوش اور غیرت مند ہوتے ہیں لیکن ان کا گزر اوقات مشکل ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے تعاون کرنا عظیم نیکی اور بہت ثواب کا کام ہے۔
➌ سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الصدقة علی المسکین صدقة وھي علیٰ ذی الرحم المسکین ثنتان: صدقة وصلة۔»
مسکین کو صدقہ دینا تو صدقہ ہے اور رشتہ دار مسکین کو دینا دو (صدقے) ہیں: صدقہ اور صلہ رحمی۔ [مسند الحميدي بتحقيقي مخطوط ص562 ح825 وسنده صحيح، سنن الترمذي: 658 وقال: حديث حسن وصححه ابن خزيمه: 2067، والحاكم 1/407، والذهبي ولم أر لمضعفه حجة قوية]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 369   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1631  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور یا ایک دو لقمہ در بدر پھرائے، بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو، اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ اسے دیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1631]
1631. اردو حاشیہ:
➊ فقیر اور مسکین دونوں ہی نادار ہوتے ہیں۔ مگر مسکین کی ٹوہ لگانی پڑتی ہے۔مسکینی وہی محمود ہے۔جس میں سوال سے عفت اور صبروقناعت پائی جائے۔
➌ اس حدیث سے دیگر احادیث میں یہ ارشاد ہے کہ ایسے مساکین سے تعاون زیادہ افضل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1631