سنن ابي داود
كتاب صلاة السفر -- کتاب: نماز سفر کے احکام و مسائل
1. باب صَلاَةِ الْمُسَافِرِ
باب: مسافر کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1198
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ، رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (حسب معمول) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 1 (350)، وتقصیر الصلاة 5 (1090)، فضائل الصحابة 76 (3720)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (685)، سنن النسائی/الصلاة 3 (456)، (تحفة الأشراف: 1648)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (9)، مسند احمد (6/234، 241، 265، 272)، سنن الدارمی/الصلاة 179(1550) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اضافہ صرف چار رکعت والی نماز ظہر، عصر اور عشاء میں کیا گیا، مغرب کی حیثیت دن کے وتر کی ہے، اور فجر میں لمبی قرات مسنون ہے اس لئے ان دونوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے اور بعض کے نزدیک رخصت ہے چاہے تو پوری پڑھے اور چاہے تو قصر کرے مگر قصر افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 455  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
ولید کہتے ہیں کہ ابوعمرو اوزاعی نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے زہری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں آپ کی نماز کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو دو رکعت نماز فرض کی، پھر حضر میں چار رکعت کر کے انہیں مکمل کر دی، اور سفر کی نماز سابق حکم ہی پر برقرار رکھی گئی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 455]
455 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں سابقہ حدیث ہی کی کچھ تفصیل آئی ہے، یعنی سوال معراج سے قبل مکی زندگی کی نماز کے بارے میں تھا کیونکہ معراج، محقق قول کے مطابق ہجرت سے صرف چھ ماہ قبل ہوئی، قرب کی بنا پر معراج اور ہجرت مدینہ کو ایک ہی سمجھ لیا گیا۔ اب مطلب صاف ہے جیسا کہ حدیث: 454 کے فوائد میں بیان کیا گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 455   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1198  
´مسافر کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (حسب معمول) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1198]
1198۔ اردو حاشیہ:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے، اس کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں نماز فرض ہونے سے پہلے لوگ اپنے طور پر دو دو رکعت نماز ادا کرتے ہوں۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1198