سنن ابي داود
كتاب صلاة السفر -- کتاب: نماز سفر کے احکام و مسائل
16. باب مَنْ قَالَ يُصَلِّي بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُ كُلُّ صَفٍّ فَيُصَلُّونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً
باب: ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اور خود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔
حدیث نمبر: 1243
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَقَامُوا فِي مَقَامِ أُولَئِكَ، وَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً أُخْرَى، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَامَ هَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ، وَقَامَ هَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ نَافِعٌ، وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَذَلِكَ قَوْلُ مَسْرُوقٍ، وَيُوسُفُ بْنُ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَى يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ فَعَلَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الخوف 1 (942)، المغازي 31 (4133)، صحیح مسلم/المسافرین 57 (839)، سنن الترمذی/الصلاة 281 (الجمعة 46) (564)، سنن النسائی/الخوف 18 (1539)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 151 (1258)، (تحفة الأشراف: 6931)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/147) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1258  
´ڈر کی حالت میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا: امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1258]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز اتنی اہم عبادت ہے۔
کہ حالت جنگ میں بھی معاف نہیں البتہ اس صورت میں اس کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
اور بہت سے احکام میں نرمی آ جاتی ہے۔

(2)
نماز خوف کی متعدد صورتیں ہیں۔
حالات کے مطابق ان میں سے کوئی سی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔

(3)
اس حدیث میں مذکور صورت پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب دشمن قبلے کی طرف نہ ہو۔
اس صورت میں فوج کے دو حصے کیے جائیں گے۔
پہلا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کرچلا جائے گا۔
اس اثناء میں دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔
جب پہلا گروہ دشمن کے سامنے پہنچ جائے گا۔
تو دوسرا گروہ امام کے ساتھ آ کر ایک رکعت پڑھ لے گا۔
اور دوسری رکعت اکیلے اکیلے ادا کی جائے گی۔
جیسے مقتدی کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو وہ بعد میں ادا کرلیتا ہے۔
پہلے گروہ کے افراد اپنے اپنے مقام پر ایک ایک رکعت پڑھ لیں گے۔
اگر معروف طریقے سے ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
تو اشارے سے رکوع سجدہ کر لیا جائے۔
اگرچہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو۔

(4)
زیادہ سخت حالات میں جب اس قدر بھی جماعت کا اہتمام ممکن نہ ہو تو لڑائی کے دوران میں چلتے پھرتے ہی اشارے سے نماز پڑھ لی جائے۔
اگر قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو بغیرقبلے کی طرف منہ کئے پڑھ لی جائے۔

(5)
نماز خوف کے دوسرے طریقے بھی مختلف احادیث میں وارد ہیں۔
جن میں کچھ اگلی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1258   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 380  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کسی غزوہ میں گیا۔ ہم دشمن کے بالکل مقابل صف بستہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت نماز ادا کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی دو سجدوں کے ساتھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا تو دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ پوری کی۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 380»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.»
تشریح:
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔
سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔
2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔
حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔
3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 380   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 564  
´نماز خوف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو صلاۃ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا، پھر یہ لوگ پلٹے، اور ان لوگوں کی جگہ پر جو دشمن کے مقابل میں تھے جا کر کھڑے ہو گئے اور جو لوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔ اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 564]
اردو حاشہ: 1؎:
جوآگے آرہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 564   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1243  
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اور خود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1243]
1243۔ اردو حاشیہ:
اس صورت میں گویا امام اپنے مجاہد مقتدیوں کا محافظ بنا کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1243