صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
6. بَابُ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ:
باب: وضو پورا کرنے کے بارے میں۔
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ الإِنْقَاءُ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وضو کا پورا کرنا اعضاء وضو کا صاف کرنا ہے۔
حدیث نمبر: 139
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ:"دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغِ الْوُضُوءَ، فَقُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ، فَرَكِبَ، فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلَّى وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے موسیٰ بن عقبہ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز کا وقت (آ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز، تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 139  
´وضو پورا کرنے کے بارے میں`
«. . . عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغِ الْوُضُوءَ، فَقُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ أَمَامَكَ، فَرَكِبَ، فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلَّى وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا . . .»
. . . اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز کا وقت (آ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز، تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ: 139]

تشریح:
پہلی مرتبہ آپ نے وضو صرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیا تو خوب اچھی طرح کیا، ہر اعضائے وضو کو تین تین بار دھویا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھنا چاہئیے۔ اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیا تھا۔ جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔ [فتح الباري]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 139   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 139  
139. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:139]
حدیث حاشیہ:
پہلی مرتبہ آپ نے وضو صرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔
دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیا توخوب اچھی طرح کیا، ہر اعضائے وضو کو تین تین باردھویا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو ملا کر پڑھنا چاہئیے۔
اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیا تھا۔
جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 139   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 178  
´قصر نمازمیں سنتوں کی ادائیگی نہیں ہے`
«. . . مالك عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن اسامة بن زيد انه سمعه يقول: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضا ولم يسبغ الوضوء، فقلت له: الصلاة، فقال: الصلاة امامك. فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضا واسبغ الوضوء، ثم اقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم اناخ كل إنسان بعيره فى منزله، ثم اقيمت العشاء فصلاها، ولم يصل بينهما شيئا . . .»
. . . سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے حتیٰ کہ جب (مزدلفہ سے پہلے) ایک گھاٹی پر اترے تو پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور پورا وضو نہ کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور جب مزدلفہ میں پہنچے تو اتر کر وضو کیا اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا۔ پھر عشاء کی اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 178]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 139، ومسلم 1280، من حديث مالك به]
تفقه:
① مزدلفہ پہنچ کر نماز بلاتاخیر پڑھنی چاہئے۔ صحابہ نے سواریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظار نہیں کیا، مغرب کی نماز پڑھ کر سواریاں بٹھائیں۔
پورا وضو نہ کیا سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخفیف فرمائی، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں «باب التخفيف فى الوضوء» سے وضاحت کی ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري قبل حديث: 138] یعنی اعضائے وضو پر پانی کم بہایا اور زیادہ مَلنے یا دھونے کے بجائے ایک دفعہ پر ہی اکتفا کیا۔ «والله اعلم»
③ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ میں پڑھتے تھے۔ [الموطأ 1/401 ح927 وسنده صحيح]
④ بعض لوگ ایام حج میں پوری نمازیں پڑھتے رہتے ہیں، ان کا یہ عمل احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر کر فرمایا: اے مکے والو! اپنی نمازیں پوری کرو، ہم مسافر ہیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں تو ہم تک یہ نہیں پہنچا کہ انہوں نے مکے والوں سے کچھ فرمایا ہو۔ [الموطأ 4٠2/1 4٠3 ح93٠ وسنده صحيح]
عرفات سے واپسی کے بعد مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں مزدلفہ کی وادی میں جمع کر کے (اور قصر کے ساتھ) پڑھنی چاہئیں- ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنتیں یا نوافل نہیں ہیں- نیز دیکھئے حدیث: 488
⑥ امام مالک نے فرمایا: مکے والے بھی حج (کے دنوں) میں مکہ واپس آنے تک دو دو رکعتیں ہی پڑھیں گے۔ [الموطا 1 / 402 وترقيم الاستذكار: 868]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 190   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3019  
´ضرورت پڑنے پر عرفات اور مزدلفہ کے درمیان اترنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات سے لوٹا، جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے اتر کر پیشاب کیا، پھر وضو کیا، تو میں نے عرض کیا: نماز (پڑھ لی جائے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز تمہارے آگے (پڑھی جائے گی) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو اذان دی، اقامت کہی، اور مغرب پڑھی، پھر کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور عشاء پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3019]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
عرفات سے واپسی پر مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کی جاتیں ہیں۔

(2)
دونمازیں ایک اذان سے ادا کی جاتی ہیں، البتہ اقامت دونوں کے لیے الگ الگ ہوتی ہے۔

(3)
اس موقع پر مغرب اور عشاء کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کرلینا درست ہے۔

(4)
مزدلفہ میں ٹھرنا حج کا رکن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3019   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:139  
139. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ اترے، پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا لیکن وضو پورا نہ کیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت قریب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز آگے چل کر پڑھیں گے۔ پھر آپ سوار ہوئے، جب مزدلفہ آئے تو اترے اور پورا وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی اور آپ نے مغرب کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنے مقام پر بٹھایا، پھر عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ نے نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان نفل وغیرہ نہیں پڑھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:139]
حدیث حاشیہ:

مکمل وضو سے مراد وہ وضو ہے جس میں تمام فرائض و واجبات اورآداب و سنن کا خیال رکھا گیا ہو۔
دوسرے الفاظ میں مرات کے اعتبار سے تثلیث اور عمل کے لحاظ سے اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسباغ کی تفسیر انقاء سے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔
اس سے اسراف سے اجتناب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کیونکہ مقصد انقاء اور صفائی ہے۔
تکرار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ اسراف کی حد میں پہنچ جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس تعلیق کو مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔
ان کے متعلق مروی ہے کہ اپنے پاؤں کو سات مرتبہ دھویا کرتے تھے۔
(الأوسط لإبن المنذر، حدیث: 401)
کیونکہ اہل عرب عام احوال میں ننگے پاؤں رہنے کے عادی تھے، اس لیے پاؤں کا دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ میلا ہو جانا ایک طبعی چیز ہے۔
(فتح الباري: 316/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کے بعد نماز ادا نہیں کی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی تھے۔
اس سے ان حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو اس وضو سے استنجا مراد لیتے ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ میں دوران وضو میں آپ کے اعضاء شریفہ پر پانی ڈالتا تھا، نیز مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی سے وضو فرمایا۔
(زوائد مسند أحمد: 76/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کا پانی پینے کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 316/1)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث كتاب الحج میں بیان ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 139