سنن ابي داود
كتاب التطوع -- کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام و مسائل
12. باب صَلاَةِ الضُّحَى
باب: نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1292
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ" هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى؟ فَقَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ، قُلْتُ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرِنُ بَيْنَ السُّورَتَيْنِ؟ قَالَتْ: مِنَ الْمُفَصَّلِ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 13 (717)، سنن النسائی/الصیام 19 (2187)، (تحفة الأشراف: 16211)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/171، 204، 218) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس تک کی سورتیں مفصل کہلاتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح م الشطر الأول منه
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 145  
´چاشت کی نماز مستحب ہے`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 145]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1128، ومسلم 718، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]

تفقه:
➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، الا یہ کہ جب سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) دیکھئے: [صحيح مسلم 717]
● دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعتیں یا زیادہ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم: 719]
◄ معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے مگر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 49/3]
➋ چاشت کی نماز واجب یا سنت موکدہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور افضل ہے۔
➌ چاشت کی نماز دو رکعتیں، چار رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 719، 720، 721 وصحيح بخاري: 1176، وصحيح مسلم 336 بعدح 719] ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسنون ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو چاشت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [صحيح مسلم:722، 721]
➎ چاشت کی نماز کا وقت سورج کے طلوع کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور اس کا افضل وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں دھوپ سے گرم ہونے پر ہے۔ [صحيح مسلم: 748]
● اسے صلٰوۃ الاوابین (بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔ یہ وقت دن کے ابتدائی تقریباً چوتھے حصے تک ہوتا ہے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز پڑھنے کے لئے (مسجد کی طرف) نکلتا ہے تو اسے حج کا ثواب ملتا ہے اور جو چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 558، وسنده حسن، ومسند أحمد 268/5] والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1292  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
1292۔ اردو حاشیہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں تشریف لاتے، دو رکعتیں پڑھتے، احباب سے ملاقات ہوتی، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ [صحيح بخاري: 4418]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1292