عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 20 (2919)، سنن النسائی/قیام اللیل 22 (1662)، والزکاة 68 (2562)، (تحفة الأشراف: 9949)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/151، 158،201) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1333
´تہجد میں بلند آواز سے قرآت کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا۔“[سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1333]
1333. اردو حاشیہ: فائدہ: یعنی انسان کی نیت کے مطابق اس کو اجر ملتا ہے۔ اگر قراءت میں آواز بلند کرنےسے دوسروں کو ترغیب دینا مقصود ہو تو یقیناً مباح اور مطلوب و ماجور ہے، ورنہ نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1333