سنن ابي داود
أبواب قيام الليل -- ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
27. باب فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
باب: تہجد کی رکعتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1336
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَنَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، وَقَالَ نَصْرٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَالْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَنْصَدِعَ الْفَجْرُ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ مِنْ كُلِّ ثِنْتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَيَمْكُثُ فِي سُجُودِهِ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ بِالْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہو کر فجر کی پو پھوٹنے تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر کی پڑھتے، اپنے سجدوں میں اتنا ٹھہرتے کہ تم میں سے کوئی اتنی دیر میں سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، جب مؤذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہوتا تو آپ کھڑے ہوتے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن (بلانے کے لے) آتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الأذان 41 (686)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 181 (1358)، (تحفة الأشراف: 16515، 16618)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 15 (626)، والوتر 994)، والتہجد 3 (1123)، و 23 (1160)، والدعوات 5 (6310)، صحیح مسلم/المسافرین 17 (736)، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة 126 (1198)، مسند احمد (6/34، 74، 83، 143، 167، 215، 248، 254)، سنن الدارمی/الصلاة 147 (1486)، 165 (1514، 1515) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 160  
´ایک رکعت وتر کا جواز`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک وتر (آخر میں) پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 160]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 736، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ رات کی نماز گیارہ رکعات اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔الخ [صحيح مسلم 736/122]
➋ اس حدیث اور دیگر متواتر احادیث سے ایک رکعت وتر کا جواز صراحت سے ثابت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رکعت وتر کا ثبوت قولاً و فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:969 وصحيح مسلم:751-745]
➍ سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وتر حق ہے، جو چاہے پانچ وتر پڑھے، جو چاہے تین وتر پڑھے اور جو چاہے ایک وتر پڑھے۔ [سنن النسائي 239/2 ح 1713، وسندہ صحیح]
➎ سلف صالحین میں سے سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم وغیرہم سے ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:6365، 3764، 3765، شرح معاني الآثار للطحاوي 294/1 وسنن الدارقطني 34/2 ح 1657، وسندہ حسن وقال النيموي فى آثار السنن:604 وإسناد حسن]
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی طرح تین وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان، الاحسان 3420 وإسناده صحيح، المستدرك للحاكم 304/1 ونقل النيموي عن العراقي قال: إسناده صحيح/آثار السنن: 592]
سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما دو رکعت علیحدہ اور ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري: 991]
● یہ حدیث مرفوع بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان الاحسان:2426 (2435)وسندہ حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 35   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 686  
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 686]
686 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہو گا۔
➋ گیارہ رکعت تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراویح بن جاتی تھیں، البتہ آپ انہیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔
➌ سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والا سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔
➍ ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 686   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 19  
پہلے تشہد میں درود پڑھنا
------------------
سوال: کیا دونوں تشہدوں میں درود پڑھنا ضروری ہے، پہلے تشہد میں پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا» [الأحزاب: 56]
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود وسلام بھیجو۔
اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے، جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے:
«عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰي جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ! اَمَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّيْ عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِيْ صَلَاتِنَا؟ فَقَالَ قُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» [سنن دارقطني 355/1]
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! سلام تو ہم نے جان لیا ہے مگر ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں؟ جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» کہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد انہوں نے سلام کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لی۔
مذکورہ بالا آیت سورۂ احزاب کی ہے جو 5ھ میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تشہد میں سلام پہلے ہی پڑھتے تھے، اب انہوں نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا، یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھنی ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں، صلاۃ نہ پڑھیں تو « ﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ » پر تو عمل ہو گا لیکن « ﴿صَلُّوْا عَلَيْهِ﴾ » پر عمل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
«فَقُلْتُ یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! اَنْبِئِیْنِيْ عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَھُوْرَهُ فَیَبْعَثُهُ اللهُ فِیْمَا شَاءَ اَنْ یَبْعَثَهُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّكُ وَیَتَوَضَّأُ ثُمَّ یُصَلِّيْ تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْھِنَّ اِلَّاعِنْدَ الثَّامِنَةِ فَیَدْعُوْ رَبَّهُ وَ یُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ ثُمَّ یَنْھَضُ وَلَا یُسَلِّمُ ثُمَّ یُصَلِّيْ التَّاسِعَةَ فَیَقْعُدُ ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّهُ وَیُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَدْعُوْ ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمًا» [أبوعوانة 324/2، بيهقي 500/2، نسائي 1721]
میں نے کہا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں۔ تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور طہارت کے لیے پانی تیار کر دیتے۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے، آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے، پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے، پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد کر کے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعاکرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں درود پڑھا ہے۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں بھی درود پڑھناچاہیے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 193   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1177  
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1177]
اردو حاشہ:
فائده:
اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ تین وتر بھی دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے۔
یعنی دو رکعت پڑھ کرسلام پھیر دیتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔
اس اعتبارسے تین وتر دوسلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔
اگرچہ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ بھی جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1177   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 440  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 440]
اردو حاشہ:
1؎:
اضطجاع کے ثبوت کی صورت میں تہجد سے فراغت کے بعد داہنے کروٹ لیٹنے کی جو بات اس روایت میں ہے یہ کبھی کبھار کی بات ہے،
ورنہ آپ کی زیادہ تر عادت مبارکہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کی تھی،
اسی معنی میں ایک قولی روایت بھی ہے جو اس کی تائید کرتی ہے (دیکھئے حدیث رقم 420)

نوٹ:
(اضطجاع کا ذکر صحیح نہیں ہے،
صحیحین میں آیا ہے کہ اضطجاع فجر کی سنت کے بعد ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 440   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1334  
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1334]
1334. اردو حاشیہ: فائدہ: فجر کی سنتوں کو بھی بعض روایات میں رات کی نماز میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اول وقت میں پڑھی جاتی تھیں اور وتروں کے ساتھ گویا متصل ہوتی تھیں۔ اس طرح رات کی نماز کی تعداد تیرہ ہوجاتی ہے۔ تاہم زیادہ روایات میں یہ تعداد گیارہ ہی بیان ہوئی ہے، یعنی ان میں فجر کی دوسنتیں شامل نہیں کی گئی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1334