سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر -- کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
9. باب فِي نَقْضِ الْوِتْرِ
باب: وتر دوبارہ نہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1439
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، قَالَ: زَارَنَا طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَمْسَى عِنْدَنَا وَأَفْطَرَ، ثُمَّ قَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدِهِ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا بَقِيَ الْوِتْرُ قَدَّمَ رَجُلًا، فَقَالَ: أَوْتِرْ بِأَصْحَابِكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ".
قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان میں ایک دن ہمارے پاس آئے، شام تک رہے روزہ افطار کیا، پھر اس رات انہوں نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا، ہمیں وتر پڑھائی پھر اپنی مسجد میں گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ جب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک شخص کو آگے بڑھایا اور کہا: اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 227 (الوتر13) (470)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1680)، (تحفة الأشراف:5024)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/23) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 304  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں۔ اسے احمد نے اور تینوں یعنی ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 304»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في نقض الوتر، حديث:1439، والترمذي، الوتر، حديث: 470، والنسائي، قيام الليل، حديث:1680، وأحمد:4 /23، وابن حبان (الإحسان): 4 /75، حديث:2440.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں پڑھنے چاہییں۔
بعض حضرات کا یہ کہنا کہ اگر اول رات میں وتر پڑھے ہوں‘ پھر رات کے آخری حصے میں بیدار ہو تو پہلے ایک رکعت پڑھ کر جفت (جوڑا) بنا لے‘ پھر نفل پڑھ کر آخر میں وتر پڑھ لے‘ صحیح نہیں ہے۔
یہ عمل اس حدیث کے خلاف ہے۔
مزید تفصیل کے لیے امام مروزی رحمہ اللہ کی قیام اللیل ملاحظہ ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 304   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1439  
´وتر دوبارہ نہ پڑھنے کا بیان۔`
قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان میں ایک دن ہمارے پاس آئے، شام تک رہے روزہ افطار کیا، پھر اس رات انہوں نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا، ہمیں وتر پڑھائی پھر اپنی مسجد میں گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ جب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک شخص کو آگے بڑھایا اور کہا: اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1439]
1439. اردو حاشیہ: کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر انسان نے عشاء کے وقت وتر پڑھ لیے ہوں۔ اور پھر وہ جب تہجد کے لئے اُٹھے۔ تو پہلے ایک رکعت پڑھے تاکہ پہلے کی پڑھی ہوئی نماز وتر جفت بن جائے۔ بعد ازاں اپنی نماز پڑھتا رہے۔ اور پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔ تاکہ اس ارشاد پر عمل ہوجائے۔ جس میں ہے کہ اپنی رات کی نماز کا آخری حصہ وتر کو بناؤ۔ مگر راحج یہی ہے کہ وتر کو نہ توڑا جائے۔ کیونکہ اس کے بارے میں مروی روایت ضعیف ہے۔ گویا پڑھے ہوئے وتر کو توڑ کر جفت بنانا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں۔ اس لئے جو شخص تہجد کا عادی نہ ہو۔ اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ وتر عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لے۔ پھر اگر اسے تہجد کے وقت اُٹھنے کا موقع مل جائے۔ تو وہ دو دورکعت کر کے نماز تہجد پڑھ لے۔ آخر میں اسے وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1439