سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الوتر -- کتاب: وتر کے فروعی احکام و مسائل
23. باب الدُّعَاءِ
باب: دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1485
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَمَّن حَدَّثَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَسْتُرُوا الْجُدُرَ، مَنْ نَظَرَ فِي كِتَابِ أَخِيهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَإِنَّمَا يَنْظُرُ فِي النَّارِ، سَلُوا اللَّهَ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ فَامْسَحُوا بِهَا وُجُوهَكُمْ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ كُلُّهَا وَاهِيَةٌ، وَهَذَا الطَّرِيقُ أَمْثَلُهَا وَهُوَ ضَعِيفٌ أَيْضًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 119 (3866)، (تحفة الأشراف:6448) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عبداللہ بن یعقوب کے شیخ مبہم ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1181  
´دعا میں ہاتھ اٹھانے اور اس کو چہرے پر پھیرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کا باطن منہ کی طرف کر کے دعا کرو، ان کے ظاہری حصہ کو منہ کی طرف نہ کرو، اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرہ پر پھیر لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1181]
اردو حاشہ:
فائدہ:
ہ روایت ضعیف ہے۔
اس لئے اس سے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا اثبات نہیں ہوتا۔
تاہم بعض علماء نے شواہد کے طور پر اس روایت کوحسن لغیرہ تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے آثار سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔
اس لئے دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں۔
اس لئے اس کا ثبوت صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1181   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1485  
´دعا کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1485]
1485. اردو حاشیہ: دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی احادیث انفراداً ضعیف ہیں مگر بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ مجموعی لہاظ سے درجہ حسن تک پہنچتی ہیں۔ [بلوغ المرام، کتاب الجامع، باب الذکر والدعاء، حدیث: 1554) شیخ البانی ؒ اور ہمارے محقق شیخ زبیر علی زئی وغیرہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ لیکن بعض دوسرے شیوخ بعض آثارصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی بنیاد پر جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ دعا کے بعد اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ دیکھئے۔ [الأدب المفرد، حدیث: 609) دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح دعائے قنوت بھی ان علماء کے نزدیک دعا ہی ہے۔ بنا بریں ان کے نزدیک ہاتھ پھیرنے کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسکے بعد بھی چہرے پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوگا۔ ایک جلیل القدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے قنوت وتر میں بھی ہاتھ پھیرنے کا عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ [قیام اللیل للمروزي، ص: 236 و مسائل الإمام أحمد، روایة ابن عبد اللہ، ج:
➋ ص:300)
تاہم دعائے قنوت وتر چونکہ نماز کا ایک حصہ ہے۔ اس لئے دعائے قنوت وتر کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنے سے بچنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس کا اثبات حدیث سے ہوتا ہے نہ عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے۔ واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1485