سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1570
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: هَذِهِ نُسْخَةُ كِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَتَبَهُ فِي الصَّدَقَةِ، وَهِيَ عِنْدَ آلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَقْرَأَنِيهَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَوَعَيْتُهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَهِيَ الَّتِي انْتَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ:" فَإِذَا كَانَتْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ وَحِقَّةٌ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَبِنْتُ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ خَمْسِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَخَمْسِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سِتِّينَ وَمِائَةً فَفِيهَا أَرْبَعُ بَنَاتِ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسِتِّينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سَبْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ وَحِقَّةٌ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسَبْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَمَانِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَابْنَتَا لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَمَانِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ تِسْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ وَبِنْتُ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَتِسْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا أَرْبَعُ حِقَاقٍ أَوْ خَمْسُ بَنَاتِ لَبُونٍ أَيُّ السِّنَّيْنِ وُجِدَتْ أُخِذَتْ وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ"، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفِيهِ:" وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد کے پاس تھی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جائیں تو ایک سو انتالیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جائیں تو ایک سو انچاس (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جائیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جائیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اور دو (۲) بنت لبون ہیں، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جائیں تو ایک سو ننانوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب دو سو (۲۰۰) ہو جائیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جائیں، لے لیے جائیں گے۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1568)، (تحفة الأشراف:6813، 18670) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1570  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد کے پاس تھی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جائیں تو ایک سو انتالیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جائیں تو ایک سو انچاس (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جائیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جائیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اور دو (۲) بنت لبون ہیں، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جائیں تو ایک سو ننانوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب دو سو (۲۰۰) ہو جائیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جائیں، لے لیے جائیں گے۔‏‏‏‏ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1570]
1570. اردو حاشیہ:
➊ انٹوں میں زکوۃ کی یہ تفصیل اسی قاعدے کے تحت ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہو چکا ہے کہ ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائیں تو (ان کے حصے بنا لیے جائیں) ہر پچاس میں ایک حقہ اور ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور کسر معاف ہے۔
➋ خلیط بمعنی شریک ہی ہے، مگر کچھ فرق کیا گیا ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں: جب ان کے مال ایک دوسرے سے نمایاں اور ممیز ہوں تو یہ خلیط نہیں ہوتے (شریک ہوتے ہیں) اور جب چرواہا‘ چراگاہ‘ باڑہ اور ان کا نر ایک ہوتو خلیط کہلاتے ہیں..... علاوۃ ازیں یہ بھی ہےکہ ایک کے مال کی تعداد بھی نصاب کے مطابق ہو.... جبکہ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے بلکہ جب مجموعی مال نصاب کو پہنچتا ہو تو خلیط ہیں خواہ ایک کا حصہ ایک بکر ی ہی کیوں نہ ہو۔
➌ اکٹھے مال کو متفرق کرنا یا متفرق کو جمع کرنا دو غرض سے ہوسکتا ہے زکوۃ ساقط کرنے کے لیے یا اس کی مقدار کم کرنے کے لیے۔ مثلاً ساٹھ بکریاں کو جدا جدا کر دیا جائے تو کوئی زکوۃ نہ ہو گی..... یا پچاس پچاس کے ریوڑ پر دو بکریاں آتی ہیں مگر جمع کر دی جائیں تو ایک ہی آئے گی اور اس طرح ایک بکر ی بچالی جائے ....... یہ حکم مالک، چروا ہے اور تحصیلدار زکوۃ سبھی کو ہے کیونکہ ممکن ہے تحصیلدار کسی کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے یہ کام کرے.. یا زکوۃ میں اضافے کےلیے کوئی تدبیر کرنا چاہے، ایسا کرنا کسی کو بھی روا نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1570