سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1580
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: أَتَانَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَقَرَأْتُ فِي عَهْدِهِ:" لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ" وَلَمْ يَذْكُرْ رَاضِعَ لَبَنٍ.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا: زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے، اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:15593) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1580  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا: زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے، اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1580]
1580. اردو حاشیہ:
➊ حسب احوال حکومت کے کارندے سے اس کی شناخت اور اصل حکومتی فرمان طلب کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
➋ امام ابو داؤد کے آخری جملے «لاتجمع» میں عامل کو تنبیہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ جانوروں کو جمع نہ کرنا ........اور «لایجمع» (صیغہ غائب مجہول) میں صاحب زکوۃ اور عامل دونوں کو تنبیہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1580   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1579  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خود گیا، یا یوں کہتے ہیں: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محصل کے ساتھ گیا تھا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کی کتاب میں لکھا تھا: ہم زکاۃ میں دودھ والی بکری یا دودھ پیتا بچہ نہ لیں، نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدق اس وقت آتا جب بکریاں پانی پر جاتیں اور وہ کہتا: اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو، ایک شخص نے اپنا کوبڑے کوہان والا اونٹ کو دینا چاہا تو مصدق نے اسے لینے سے انکار کر دیا، اس شخص نے کہا: نہیں، میری خوشی یہی ہے کہ تو میرا بہتر سے بہتر اونٹ لے، مصدق نے پھر لینے سے انکار کر دیا، اب اس نے تھوڑے کم درجے کا اونٹ کھینچا، مصدق نے اس کے لینے سے بھی انکار کر دیا، اس نے اور کم درجے کا اونٹ کھینچا تو مصدق نے اسے لے لیا اور کہا: میں لے لیتا ہوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر غصہ نہ ہوں اور آپ مجھ سے کہیں: تو نے ایک شخص کا بہترین اونٹ لے لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشیم نے ہلال بن خباب سے اسی طرح روایت کیا ہے، مگر اس میں «لا تفرق» کی بجائے «لا يفرق» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1579]
1579. اردو حاشیہ:
➊ زکوۃ میں نفیس مال لینے سےمنع کیا گیا ہے مگر یہ دین واخلاص ہی تھا کہ لوگ شاندار مال پیش کرتے تھے مگر عاملین قیول نہ کرتے تھے۔ ٹیکس میں یہ برکت کہاں؟
➋ زکوۃ وصول کرنے کے لیے عامل کو لوگوں کے ڈیروں پر پہنچنا چاہیے، نہ کہ انہیں اپنے مراکز و دفاتر کے طواف کرائے جائیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1579