سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
6. باب رِضَا الْمُصَدِّقِ
باب: زکاۃ وصول کرنے والے کی رضا مندی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1589
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي كَامِلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هِلَالٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ، يَعْنِي مِنَ الْأَعْرَابِ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِينَ يَأْتُونَا فَيَظْلِمُونَا، قَالَ: فَقَالَ:" أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ ظَلَمُونَا؟ قَالَ:" أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ". زَادَ عُثْمَانُ: وَإِنْ ظُلِمْتُمْ. قَالَ أَبُو كَامِلٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ جَرِيرٌ: مَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ عَنِّي رَاضٍ.
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یعنی کچھ دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: صدقہ و زکاۃ وصول کرنے والوں میں سے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، انہوں نے پوچھا: اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، عثمان کی روایت میں اتنا زائد ہے اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں۔ ابوکامل اپنی حدیث میں کہتے ہیں: جریر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے میرے پاس جو بھی مصدق آیا، مجھ سے خوش ہو کر ہی واپس گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 55 (989)، سنن النسائی/الزکاة 14 (2462)، (تحفة الأشراف:3218)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة 20 (647)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 11 (1802)، مسند احمد (4/362)، سنن الدارمی/الزکاة 32 (1712) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1802  
´محصل زکاۃ والے سے کس قسم کا اونٹ لے؟`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عامل زکاۃ لوگوں کو خوش رکھ کر ہی واپس جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1802]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملو، اس کے فرمائش کی ادائیگی میں اس سے تعاون کرو اور خوشی کے ساتھ زکاۃ ادا کرو۔
اگر تمہاری نظر میں وہ تم سے واجب سے زیادہ طلب کر رہا ہو تو بھی ادا کرو۔
اگر اس کی غلطی ہو گی تو اس کا بوجھ اس کے سر ہوگا، تمہیں ثواب ہی ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1802   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1589  
´زکاۃ وصول کرنے والے کی رضا مندی کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یعنی کچھ دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: صدقہ و زکاۃ وصول کرنے والوں میں سے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، انہوں نے پوچھا: اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا: تم اپنے مصدقین کو راضی کرو، عثمان کی روایت میں اتنا زائد ہے اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں۔‏‏‏‏ ابوکامل اپنی حدیث میں کہتے ہیں: جریر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے میرے پاس جو بھی مصدق آیا، مجھ سے خوش ہو کر ہی واپس گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1589]
1589. اردو حاشیہ: عامل کو راضی کرنا اسی صورت میں ہے کہ وہ واجب شرعی کا مطالبہ کرے تو اسے ادا کر دیا جائے اور اس کے ساتھ حسن معاملہ کا رویہ رکھا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ حکم عادل اور غیر ظالم عاملین کے متعلق ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1589