سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
15. باب فِي الْخَرْصِ
باب: درخت پر پھل کے تخمینہ لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1605
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: جَاءَ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ إِلَى مَجْلِسِنَا، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا خَرَصْتُمْ فَجُذُّوا وَدَعُوا الثُّلُثَ، فَإِنْ لَمْ تَدَعُوا أَوْ تَجُذُّوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبْعَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْخَارِصُ يَدَعُ الثُّلُثَ لِلْحِرْفَةِ.
عبدالرحمٰن بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں تشریف لائے، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم پھلوں کا تخمینہ کر لو تب انہیں کاٹو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی ہی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اندازہ لگانے والا ایک تہائی بیج بونے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے چھوڑ دے گا، اس کی زکاۃ نہیں لے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 17 (643)، سنن النسائی/الزکاة 26 (2490)، (تحفة الأشراف:4647)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/3) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عبدالرحمن بن مسعود انصاری لین الحدیث ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی جتنا اندازہ لگایا جائے اس میں سے ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا جائے، اس کی زکاۃ نہ لی جائے کیوں کہ تخمینے میں کمی بیشی کا احتمال ہے، اسی طرح پھل تلف بھی ہو جاتے ہیں اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں، ایک تہائی چھوڑ دینے سے مالک کے ان نقصانات کی تلافی اور بھر پائی ہو جاتی ہے، اس پر اکثر علماء کا عمل ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 497  
´پھلوں میں زکاۃ کا بیان`
سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا جب تم غلہ کا تخمینہ اور اندازہ لگاؤ تو ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 497]
لغوی تشریح:
«اِذَا خَرَصْتُمْ» یہ خطاب زکاۃ وصول کرنے والے عاملین اور سرکاری نمائندوں کو ہے۔ «خرص» اندازہ اور تخمینہ لگانے کو کہتے ہیں۔ یہاں «خرص» سے مراد انگور اور تر کھجور کا درختوں پر اندازہ لگانا ہے۔ ان دونوں کا اندازہ لگانے کی صورت یہ ہے کہ جب انگور اور کھجور میں مٹھاس پیدا ہو جائے تو اندازہ لگانے والا درخت کے گرد چکر لگائے، سارے پھلوں پر سرسری نظر دوڑا کر اندازہ لگائے کہ جب یہ انگور خشک ہو کر کشمکش کی صورت اختیار کر لیں گے تو اس وقت ان کی مقدار اور وزن اتنا رہ جائے گا اور یہ کھجور جب خشک ہو گی تو اتنی مقدار میں باقی رہ جائے گی اور اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو اس کے اندازے کے مطابق زکاۃ لی جائے گی۔ اس تخمینہ اور اندازہ لگانے کے لیے ایک ہی آدمی کافی ہے بشرطیکہ وہ منصف مزاج اور عادل ہوا اور اس کام میں مہارت رکھتا ہو۔
«فَخُذُوا» پس تخمینے کے مطابق تم زکاۃ وصول کر لو۔ «خُذُوا» امر کا صیغہ ہے اور «اخذ» سے ماخوذ ہے۔
«وَدَعُو الثُّلُثَ . . . . الخ» مال کے مالکوں کے لیے تخمینہ لگائی گئی مقدار میں سے ایک تہائی حصہ چھوڑ دو۔
ایک قول یہ ہے کہ تیسرا یا چوتھا حصہ مالکوں کے لیے اس لیے چھوڑا جاتا ہے کہ مالک خود اپنے اعزہ و اقرباء، ہمسایوں اور مانگنے والے فقراء مساکین پر صدقہ و خیرات کر سکے اور اس سلسلے میں، یعنی واجب مقدار سے زائد صدقہ کرنے میں اسے تنگی اور حرج میں نہیں پڑنا چاہیے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ تہائی یا چوتھائی حصہ عشر نکالنے سے پہلے اسی اصل مال سے الگ رکھا جائے گا تاکہ مالک پر وسعت و سہولت ہو۔ وہ خود بھی اس میں سے کھا سکے، پکے ہوئے پھل کو بیچ سکے اور اہل و عیال، پڑوسی اور مہمانوں کو ترجیح دیتے ہوئے ان پر خرچ کر سکے۔ یہ مقدار جس کے چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، ان سبزیوں کے قائم مقام ہو گی جن پر زکاۃ نہیں۔

فوائد:
یہ حدیث شریعت اسلامیہ کو خوبیوں اور محاسن میں سے ہے۔
صاحب سبل السلام نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے، یہ تو معمول کی بات ہے کہ جب پھل پک جاتا ہے تو پھل کا مالک خود اور اس کے اہل و عیال اس میں سے کھاتے ہیں اور کبھی دوسرے لوگوں کو بھی کھلاتے ہیں، لہٰذا یہ مقدار ذخیرہ نہیں ہو سکتی۔ اور عرف عام میں خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کو ان سبزیوں کی جگہ تصور کیا جاتا ہے جو ذخیرہ کر کے رکھی نہیں جا سکتیں۔

راوی حدیث:
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ، سہل کے سین پر فتحہ اور ہا ساکن ہے۔ ان کا نام عبداللہ یا عامر بن ساعدہ بن عامر انصاری خزرجی مدنی ہے۔ صغار صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ۳ ہجری میں پیدا ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے اور حضرت معصب بن زبیر کے عہد میں مدینہ ہی میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 497   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 643  
´درخت میں موجود پھل کا تخمینہ لگانا۔`
عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب تم تخمینہ لگاؤ تو تخمینہ کے مطابق لو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 643]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ خطاب زکاۃ وصول کر نے والے عمال اور ان لوگوں کو ہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں،
تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑ دینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزاء و اقرباء اور اپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پر خرچ کر سکے اور اس کی وجہ سے وہ کسی حرج اور تنگی میں مبتلا نہ ہو۔

نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن مسعود لین الحدیث ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 643   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1605  
´درخت پر پھل کے تخمینہ لگانے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں تشریف لائے، انہوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم پھلوں کا تخمینہ کر لو تب انہیں کاٹو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی ہی چھوڑ دیا کرو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اندازہ لگانے والا ایک تہائی بیج بونے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے چھوڑ دے گا، اس کی زکاۃ نہیں لے گا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1605]
1605. اردو حاشیہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔مگر دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔اور پھلوں کا اندازہ لگانے والا تیسرا یا چوتھا حصہ اس لئے چھوڑے کیونکہ یہ سب نظر کا معاملہ ہوتا ہے۔اور اس میں کمی بیشی کا احتمال یقینی ہے۔نیز کچھ پھل ضائع بھی ہوجاتا ہے۔اور کچھ جانور وغیرہ کھا جاتے ہیں۔اور کچھ مالک بھی غریبوں مسکینوں وغیرہ کودیتا ہے۔لہذا ثلث یا ربع چھوڑنے میں ان سب کی تلافی ہوجائےگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1605