سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
24. باب مَنْ يُعْطَى مِنَ الصَّدَقَةِ وَحَدِّ الْغِنَى
باب: زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟
حدیث نمبر: 1630
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ، فَذَكَرَ حَدِيثًا طَوِيلًا، قَالَ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يَرْضَ بِحُكْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ حَتَّى حَكَمَ فِيهَا هُوَ فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَاءٍ فَإِنْ كُنْتَ مِنْ تِلْكَ الْأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُكَ حَقَّكَ".
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی، پھر ایک لمبی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے کہا: آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے صدقے میں سے دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ صدقے کے سلسلے میں نہ پیغمبر کے اور نہ کسی اور کے حکم پر راضی ہوا بلکہ خود اس نے اس سلسلے میں حکم دیا اور اسے آٹھ حصوں میں بانٹ دیا اب اگر تم ان آٹھوں ۱؎ میں سے ہو تو میں تمہیں تمہارا حق دوں گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:3654) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: ان آٹھ قسموں کا ذکر اس آیت میں ہے: «إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم» (سورة التوبة: ۶۰)، زکاۃ صرف فقراء، مساکین اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے ہے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والاہے ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1630  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی، پھر ایک لمبی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے کہا: آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: مجھے صدقے میں سے دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ صدقے کے سلسلے میں نہ پیغمبر کے اور نہ کسی اور کے حکم پر راضی ہوا بلکہ خود اس نے اس سلسلے میں حکم دیا اور اسے آٹھ حصوں میں بانٹ دیا اب اگر تم ان آٹھوں ۱؎ میں سے ہو تو میں تمہیں تمہارا حق دوں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1630]
1630. اردو حاشیہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ لیکن اس میں جو بات بیان ہوئی ہے۔ وہ صحیح ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے زکواۃ کےمستحقین کا زکر سورۃ توبہ کی اس آیت میں کیا ہے۔ <قرآن> (إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)(التوبہ۔60) اور اس مسئلے میں اہل علم کے دو قول معروف ہیں۔ ایک یہ کہ صدقہ کے مال کو آیت کریمہ میں مذکور آٹھواں اصناف میں تقسیم کرناواجب ہے۔ یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور چنددیگر علماء سے مروی ہے۔اور دوسرے قول کے مطابق امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان سے قبل کئی ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا کہناہے۔ کہ کسی ایک یا چند لوگوں کو دے دینا بھی کافی اور صحیح ہے۔ جیسے کہ امام المسلمین اور صاحب صدقہ کی ترجیح ہو اور یہی موقف راحج ہے۔(تفسیر شوکانی]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1630