سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
34. باب حَقِّ السَّائِلِ
باب: سائل کے حق کا بیان۔
حدیث نمبر: 1666
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ شَيْخٍ، قَالَ: رَأَيْتُ سُفْيَانَ عِنْدَهُ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهَا، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:10071) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں شیخ ایک مبہم راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1666  
´سائل کے حق کا بیان۔`
اس سند سے علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1666]
1666. اردو حاشیہ: ایک مسلمان جس نے اپنی آبرو کو دائو پر لگاتے ہوئے سوال کرنے کی عارکو قبول کرلیا ہو تو اسے بیک لفظ جھٹلا دینا مناسب نہیں۔ ممکن ہے وہ کسی اعتبارسے مستحق ہو۔ مثلا بہت زیادہ عیال رکھتا ہو۔ یا قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو۔اپنے وطن سے دور اور مسافر ہو یا کسی کا ضامن ہو۔وغیرہ کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے بلاوجہ اس کی تکذیب وتحقیر نہ کی جائے۔بلکہ جو مناسب ہو تعاون کردیا جائے۔ اور نصیحت کرنے سے بھی دریغ نہ کیاجائے۔جیسے کہ گزشتہ احادیث (163
➍ 1626)
میں گزرا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1666