سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
41. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1677
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" جُهْدُ الْمُقِلِّ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کم مال والے کا تکلیف اٹھا کر دینا اور پہلے ان لوگوں کو دو جن کا تم خرچ اٹھاتے ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:14813)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/358) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 512  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کم مال والے کا صدقہ اور صدقہ کی ابتداء ان سے کر جن کی تو کفالت کرتا ہے۔ اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 512]
لغوی تشریح 512:
اَلْجُھٍدُالمُقِلِّ الجھد کے جیم پر ضمہ اور ہا ساکن ہے۔ ہمت، طاقت۔ اگر جیم پر فتحہ پڑھاجائے تو پھر اس کے معنی مشقت ومحنت ہیں۔ المقل کے میم پر ضمہ اور قاف کے نیچے کسرہ ہے، قلیل مال والا آدمی۔ معنی یہ ہوے کہ جب آدمی کے پاس مال کی کمی ہو، پھر اتنا صدقہ وخیرات کرے جتنی اس کی حالت اجازت دیتی ہے تو ایسی حالت میں کیا ہوا صدقہ دوسرے صدقات سے افضل ہے۔ بظاہر یہ حدیث پہلی حدیث کے معارض ہے جس کے الفاظ ہیں:
أفضَلُ الصَّدَقَۃِ مَاکَانَ عَن ظَھرِ غِنًی ان کے مابین تطبیق یہ ہے کہ اس حدیث سے وہ شخص مراد ہے جو صدقہ کرنے کے بعد بھوک اور فقر کی مشقت کو برداشت نہیں کر سکتا اور پہلی حدیث (کم مال والے کے صدقے والی) اس آدمی کے بارے میں ہے جو ایسے حالات میں صبر کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ غنی سے نفس وضمیر کا استغناء مراد ہے۔ اس اعتبار سے ان میں کوئی منافات اور تعارض نہیں رہتا۔
فائدہ 512: اس حدیث سے دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ امیر و مالدار اور غریب و مفلس کے صدقہ و خیرات میں نمایاں فرق ہے۔ اور دوسری یہ کہ اپنے اہل وعیال کے حقوق ادا کرنے کے بعد صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خود تو صدقہ دیتا پھرے اور اس کے اہل وعیال محتاج ہوں اور دوسروں کے روبرو دست سوال دراز کرتے پھریں، اس لیے اپنے گھر والوں کی جائز شرعی ضروریات کی تکمیل کے بعد دوسروں کی طرف متوجۃ ہونا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش کا محاور ہ اس پر خوب چسپاں ہوتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 512   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1677  
´سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کم مال والے کا تکلیف اٹھا کر دینا اور پہلے ان لوگوں کو دو جن کا تم خرچ اٹھاتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1677]
1677. اردو حاشیہ: جو شخص کفاف کی حالت میں ہو کہ تازہ مذدوری کرکے لائے اور پھر اسی میں سے صدقہ بھی کرے۔ تو یہ اس کے اللہ والا ہونے کی عظیم دلیل ہے۔ ایسا شخص یقیناً کامل متوکل علی اللہ اور جنت کا حریص ہے۔ ایسا صدقہ اپنی ظاہری برکات بھی لاتا ہے۔ مگرساتھ ہی اس میں یہ تعلیم بھی ہے۔ کہ اپنے زیر کفالت افراد سے شروع کیاجائے۔ان پرخرچ کرنے کا دہرا ثواب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1677