سنن ابي داود
كِتَاب اللُّقَطَةِ -- کتاب: گری پڑی گمشدہ چیزوں سے متعلق مسائل
1. باب
باب: لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1710
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" مَا كَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 54 (1289)، سنن النسائی/قطع السارق 9 (4961)، (تحفة الأشراف:8798)ویأتی عند المؤلف برقم (4390) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 503  
´(زکوٰۃ کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خزانے کے بارے میں جو کسی آدمی کو ویرانے سے حاصل ہوا ہو (ملا ہو) فرمایا اگر تو نے یہ خزانہ کسی آباد جگہ سے پایا ہے تو اس کی تحقیق کیلئے اعلان کرو اور اگر تو نے کسی غیر آباد جگہ سے پایا ہے تو اس میں اور معدنیات میں (پانچواں حصہ) ہے۔ اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے نکالا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 503]
لغوی تشریح:
«‏‏‏‏فِي خَرِبَةِ» خا پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ شکستہ بے آباد مقام جہاں کوئی نہ رہتا ہو۔
«فِي قَرْيَةٍ مَسْكُوْنَةٍ» جہاں لوگ آباد ہوں، یعنی یہ ویران اور بے آباد جگہ، آبادی والے علاقے میں ہو۔
«فَعَرَّفْهُ» تعریف (تفیعل) سے امر کا صیغہ ہے، تو لوگوں میں اس کا اعلان کرو اور اس کی کیفیت بیان کرو حتٰی کہ اس کا مالک آ جائے اور یا پھر اس پر پورا سال گزر جائے۔ ایسی صورت میں تمھارے لیے اس کا کھانا صحیح اور درست ہے، بہرحال اس خزانے کی نوعیت گری پڑی چیز کی سی ہو گی۔
«وَاِنْ وَجَدْتَهُ فِي قَرْيَةٍ غَيْرَ مَسْكُونَةٍ» یعنی اگر تو اسے غیر آباد جگہ میں پائے تو اس کا حکم رکاز کے حکم جیسا ہو گا۔ یا یوں کہیے کہ دونوں کے حکم کی نوعیت اموال غنیمت کے حکم جیسی ہو گی۔
«وَفِي الرِّكَازِ» میں موجود واؤ عطف اس بات کی متقاضی ہے کہ جب خزانہ زمین کے پیٹ سے نہ نکالا جائے تو اسے رکاز نہیں کہتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 503