سنن ابي داود
كِتَاب اللُّقَطَةِ -- کتاب: گری پڑی گمشدہ چیزوں سے متعلق مسائل
1. باب
باب: لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1719
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجِّ". قَالَ أَحْمَدُ: قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: يَعْنِي فِي لُقَطَةِ الْحَاجِّ يَتْرُكُهَا حَتَّى يَجِدَهَا صَاحِبُهَا، قَالَ ابْنُ مَوْهَبٍ: عَنْ عَمْرٍو.
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔ احمد کہتے ہیں: ابن وہب نے کہا: یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے، ابن موہب نے «أخبرني عمرو» کے بجائے «عن عمرو» کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏م /اللقطة 1 (1724)، سنن النسائی/ الکبری/ اللقطة (5805)، (تحفة الأشراف:9705)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/499) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1719  
´لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔ احمد کہتے ہیں: ابن وہب نے کہا: یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے، ابن موہب نے «أخبرني عمرو» کے بجائے «عن عمرو» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب اللقطة /حدیث: 1719]
1719. اردو حاشیہ: راجح یہی ہے کہ حاجیوں کی گری پڑی اشیاء نہ اٹھائی جائیں تاکہ اس شہر کی حرمت اپنے وسیع تر معانی میں قائم اور ثابت رہے تاہم اگر ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوتو رخصت ہے کہ اٹھا لی جائے۔جیسے کہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس سے مرفوع احادیث میں آیا ہے۔دیکھیے: (صحیح البخاری اللقطة حدیث:2433 2434 وصحیح مسلم اللقطة حدیث:1724)اور خوب کثرت سے اعلان کرنا چاہیے۔ممکن ہے یہ چیز کسی آفاقی حاجی کی ہو۔نہ معلوم اسے دوبارہ یہاں آنا میسر بھی آتاہے یا نہیں۔علامہ ابن القیم ﷫ بھی یہی فرماتے ہیں کہ چونکہ حجاج بڑی جلدی اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے ہیں اس لیے پورے سال تک اس کا اعلان ممکن نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ چیز نہ اٹھائی جائے اور اگر اٹھائی جائے تو بہت جلد اور بار بار اعلان کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1719