سنن ابي داود
كِتَاب اللُّقَطَةِ -- کتاب: گری پڑی گمشدہ چیزوں سے متعلق مسائل
1. باب
باب: لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1720
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ جَرِيرٍ بِالْبَوَازِيجِ فَجَاءَ الرَّاعِي بِالْبَقَرِ وَفِيهَا بَقَرَةٌ لَيْسَتْ مِنْهَا، فَقَالَ لَهُ جَرِيرٌ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ لَا نَدْرِي لِمَنْ هِيَ، فَقَالَ جَرِيرٌ: أَخْرِجُوهَا، فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَأْوِي الضَّالَّةَ إِلَّا ضَالٌّ".
منذر بن جریر کہتے ہیں میں جریر کے ساتھ بوازیج ۱؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا: یہ کیسی گائے ہے؟ اس نے کہا: یہ گایوں میں آ کر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا: اسے نکالو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: گمشدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الکبری (5799)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 1 (2503)، (تحفة الأشراف:3233)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/360، 362) (صحیح)» ‏‏‏‏ (مرفوع حصہ صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: بوازيج: (عراق میں) نہر دجلہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ کسی گم شدہ جانور کو اپنا بنا لینے کے لئے اس کو پکڑ لے تو وہ گمراہ ہے، رہا وہ شخص جو اسے اس لئے پکڑے تا کہ اس کی پہچان کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: «من آوى ضالة فهو ضال ما لم يعرفها» اور نسائی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: «من أخذ لقطة فهو ضال ما لم يعرفها» جو آدمی گم شدہ چیز اپنے پاس رکھے وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2503  
´گم شدہ اونٹ، گائے اور بکری کے لقطہٰ کا بیان۔`
منذر بن جریر کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج میں تھا کہ گایوں کا ریوڑ نکلا، تو آپ نے ان میں ایک اجنبی قسم کی گائے دیکھی تو پوچھا: یہ گائے کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: کسی اور کی گائے ہے، جو ہماری گایوں کے ساتھ آ گئی ہے، انہوں نے حکم دیا، اور وہ ہانک کر نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئی، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: گمشدہ چیز کو وہی اپنے پاس رکھتا ہے جو گمراہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2503]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ حکم بڑے جانوروں مثلاً اونٹ اور گائے وغیرہ کے بارے میں ہے۔
چھوٹے جانور (بھیڑ بکر وغیرہ)
کو پکڑ لینا چاہیے تاکہ جنگل میں کوئی بھیڑیا وغیرہ نہ کھا جائے جیسے اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔

(2)
یہ توبیخ اس شخص کےلیے ہے جو جانور کواس لیے پکڑتا ہے کہ اس کا اعلان نہ کرے بلکہ قبضہ کر لے اگر وہ جانور کےمالک کی تلاش کا ارادہ رکھتا ہے توکوئی حرج نہیں۔
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے آئی ہے جو بھٹکے ہوئے جانور کو جگہ دیتا ہے وہ گمراہ ہے جبکہ اس کا اعلان نہ کرے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، باب فی لقطة الحاج، حدیث: 1725)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2503   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1720  
´لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔`
منذر بن جریر کہتے ہیں میں جریر کے ساتھ بوازیج ۱؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا: یہ کیسی گائے ہے؟ اس نے کہا: یہ گایوں میں آ کر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا: اسے نکالو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: گمشدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب اللقطة /حدیث: 1720]
1720. اردو حاشیہ:
➊ گمشدہ چیز اپنے قبضے میں لےکر چھپا لینے والا یامالک بن بیٹھنے والا ضال اور گمراہ انسان ہے جبکہ اعلان کرنے والا ایسا نہیں ہوتا۔ممکن ہے کہ حضرت جریر کا خیال ہو کہ گائے اونٹ کی طرح ہے یہ جانور کھاپی کر گزارہ کر سکتا ہے اور چھوٹے موٹے درندے بھی اس پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تواس لیے اس کا چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔اس کامالک اس کو خود ہی ڈھونڈ لے گا۔
➋ بوازیج الانبار بغداد کی بالائی جانب ایک علاقہ ہے جسے حضرت جریر نے فتح کیا تھا اور یہاں ان کے موالی رہتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1720