سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
7. باب الْكَرِيِّ
باب: حج میں جانوروں کو کرایہ کے لیے لے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1733
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَةَ التَّيْمِيُّ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا أُكَرِّي فِي هَذَا الْوَجْهِ وَكَانَ نَاسٌ يَقُولُونَ لِي: إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي رَجُلٌ أُكَرِّي فِي هَذَا الْوَجْهِ وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ لِي إِنَّهُ لَيْسَ لَكَ حَجٌّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَلَيْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِّي وَتَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَتُفِيضُ مِنْ عَرَفَاتٍ وَتَرْمِي الْجِمَارَ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ لَكَ حَجًّا، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ مِثْلِ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَرَأَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ، وَقَالَ:" لَكَ حَجٌّ".
ابوامامہ تیمی کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو سفر حج میں کرائے پر جانور دیتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ تمہارا حج نہیں ہوتا، تو میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملا اور ان سے عرض کیا: ابوعبدالرحمٰن! میں حج میں لوگوں کو جانور کرائے پر دیتا ہوں اور لوگ مجھ سے کہتے ہیں تمہارا حج نہیں ہوتا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تم احرام نہیں باندھتے؟ تلبیہ نہیں کہتے؟ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے؟ عرفات جا کر نہیں لوٹتے؟ رمی جمار نہیں کرتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، تو انہوں نے کہا: تمہارا حج درست ہے، ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ سے اسی طرح کا سوال کیا جو تم نے مجھ سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آیت کریمہ «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم» تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں کہ تم اپنے رب کا فضل ڈھونڈو نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا بھیجا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا: تمہارا حج درست ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8575)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/155) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح