سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
32. باب مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ
باب: محرم کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 1825
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ، وَزَادَ:" وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ: حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ عَلَى مَا قَالَ اللَّيْثُ، وَرَوَاهُ مُوسَى بْنُ طَارِقٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ عُمَرَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَ مَالِكٌ وَ أَيُّوبُ مَوْقُوفًا، وَ إِبْرَاهِيمُ بنُ سَعِيدٍ المَدِيِنيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" الْمُحْرِمَةُ لَا تَنْتَقِبُ وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَدِينِيُّ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، لَيْسَ لَهُ كَبِيرُ حَدِيثٍ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے، راوی نے البتہ اتنا اضافہ کیا ہے کہ محرم عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو موسی بن عقبہ سے، اور موسیٰ نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے لیث نے کہا ہے، اور اسے موسیٰ بن طارق نے موسیٰ بن عقبہ سے ابن عمر پر موقوفاً روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عمر اور مالک اور ایوب نے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابراہیم بن سعید المدینی نے نافع سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابراہیم بن سعید المدینی ایک شیخ ہیں جن کا تعلق اہل مدینہ سے ہے ان سے زیادہ احادیث مروی نہیں، یعنی وہ قلیل الحدیث ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الصید 13 (1838)، سنن النسائی/الحج 33 (2674)، سنن الترمذی/الحج 18 (833)، (تحفة الأشراف: 8275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/119) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر’ ’ نقاب لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھیں (دیکھئے حدیث نمبر: ۱۸۳۳)، اس لئے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں، اور چوں کہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی (غیر محرم) مردوں کا سامنا پڑتا ہے، اس لئے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1825  
´محرم کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟`
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے، راوی نے البتہ اتنا اضافہ کیا ہے کہ محرم عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو موسی بن عقبہ سے، اور موسیٰ نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے لیث نے کہا ہے، اور اسے موسیٰ بن طارق نے موسیٰ بن عقبہ سے ابن عمر پر موقوفاً روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عمر اور مالک اور ایوب نے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابراہیم بن سعید المدینی نے نافع سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: ابراہیم بن سعید المدینی ایک شیخ ہیں جن کا تعلق اہل مدینہ سے ہے ان سے زیادہ احادیث مروی نہیں، یعنی وہ قلیل الحدیث ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1825]
1825. اردو حاشیہ: حدیث میں محرم عورت کے نقاب ڈالنے سےمنع کیا گیاہے۔ اس نقاب سے ایک خاص نقاب مراد ہے جو کہ ناک پر یا آنکھ کےنیچے باندھا جاتا ہے۔ اس سےمراد وہ نقاب نہیں ہے جو آج کل معروف ہے اور جسےچہرے کے پردے کےلیے استعمال کیاجاتا ہے۔ بعض لوگ اس سے موجودہ نقاب مراد لے کر محرم عورت کوچہرہ ڈھانپنے سے منع کرتے ہیں۔لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ جس نقاب سےمنع کیا گیا ہے اس کا تعلق حجاب یا چہرے کے پردے سے نہیں یہ پردہ تواحرام کی حالت میں ہو یا غیر احرام کی ہر وقت ضروری ہے۔ محرم عورت کو ایک مخصوص قسم کےنقاب سے روکا گیا ہے جو کہ صرف ناک یاآنکھ کے نیچے باندھا جاتا ہے۔ جس سےمنع کر دیا گیا۔ اس ممانعت کا تعلق حجاب والے نقاب سے نہیں۔ اس لیے اس کا تو حکم حالت احرام میں بھی ہے۔ جیسا کہ موطا امام مالک میں روایت ہے فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہرے ڈھانپا کرتی تھیں اور اسماء بن ابی بکر صدیق ؓ بھی ہمارے ساتھ ہوئی تھیں۔ (موطا امام مالک:1/328)نیز مستدرک حاکم میں بھی انہی سےروایت ہے کہ ہم مردوں سے اپنے چہروں کا پردہ کرتی تھیں۔(مستدرک حاکم:1/454) علاوہ ازین حضرت عائشہ ؓ سےمروی ہے کہ محرم عورت نہ نقاب ڈالے اور نہ گھونگھٹ نکالے البتہ سرکی طرف سے چہرے پر کپڑا لٹکالے۔ (السنن الکبری للبیہقی:5/47) ان تمام موقوف روایات سے معلوم ہواکہ آپ نے خاص قسم کے نقاب سےمنع کیا ہے نہ کہ بالکل ہی پردہ کرنے سےمنع کیا ہے۔اس لیے ہر خاتون کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنے رب سے ڈرے اور فیشن ایبل اور ایسے تمام نقابون سے بچے جو بے حجابی کو فروغ دیتے ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1825