سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
36. باب الْمُحْرِمِ يَحْتَجِمُ
باب: محرم پچھنا لگوائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1837
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ، قَالَ: ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ أَرْسَلَهُ، يَعْنِي عَنْ قَتَادَةَ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الشمائل 49 (348)، سنن النسائی/الحج 94 (2852)، (تحفة الأشراف: 1335)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/164، 267) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اگر پچھنے (سینگی) لگانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ لازم ہوگا، اسی لئے بعض علماء نے سرے سے محرم کے لئے پچھنا لگوانے کو مکروہ جانا ہے، ورنہ حقیقت میں حالت احرام میں پچھنا لگوانا مکروہ نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 429  
´ پچھنے لگانے کی اُجرت`
«. . . ابو طيبة، فامر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا عنه من خراجه . . .»
. . . ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے (مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خراج (مقرر کردہ رقم) میں کمی کر دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 429]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2102، 2110، من حديث مالك، ومسلم 1577، من حديث حميد الطّويل به وصرح حميد بالسماع عند مسلم 64/1577]

تفقه:
➊ بیماری کے علاج کے لئے آلات کے ذریعے سے جسم کے کسی حصے سے خون نکالنے کے عمل کو پچھنے لگانا یا سینگی لگانا کہتے ہیں۔
➋ پچھنے لگانے کی اجرت جائز ہے اور جن احادیث میں اسے خبیث کہا گیا ہے یا پچھنے لگانے سے منع کیا گیا ہے وہ کراہیت تنزیہی پر محمول ہیں یا پھر منسوخ ہیں۔
➌ اس سے ہمارے دور میں نائیوں کی مروجہ حجامت مراد نہیں ہے جس میں وہ سر وغیرہ کے بال کاٹتے ہیں۔ اگر مروجہ حجامت میں شریعت کے خلاف کوئی بات نہ ہو تو اس کی اجرت بھی جائز اور حلال ہے۔ یاد رہے کہ داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کاٹنا حرام ہے لہٰذا ایسی حرکت کرنے والے نائیوں (حجاموں) کی آمدنی حرام ہے۔
➍ اگر اسلامی حکومت ہو تو غلامی جائز ہے۔ میدان جہاد میں قیدی کافروں کو غلام بنا کر بعد میں بیچا جا سکتا ہے۔
➎ اچھے کام میں سفارش کرنا مسنون ہے۔
➏ بیماری کا علاج کرانا مسنون ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 152   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1837  
´محرم پچھنا لگوائے تو کیسا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1837]
1837. اردو حاشیہ:
➊ سینگی لگوانا اور فصد کھلوانا اس دور کا معروف طریقہ علاج تھا۔ اور مذکورہ بالا احادیث میں دو مختلف واقعات کا بیان آیا ہے۔
➋ اب بھی بوقت ضرورت اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اورظاہر ہے کہ اس عمل میں بالوں کی جگہ سے بال کاٹے جاتے ہیں۔جلد پر چیرالگایا جاتا ہے۔پس اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم کئی ایک فقہاء بال کاٹنے کی بنا پر فدیہ کے قائل ہیں۔نیز دانت نکلوانے یا کسی عمل جراحی کی صورت میں کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔
➌ بیماری میں علاج کرانا سنت رسول ﷺ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1837