سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
48. باب اسْتِلاَمِ الأَرْكَانِ
باب: ارکان کعبہ کے استلام (چھونے اور چومنے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1875
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّهُ أُخْبِرَ بِقَوْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، إِنَّ الْحِجْرَ بَعْضُهُ مِنْ الْبَيْتِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّ عَائِشَةَ إِنْ كَانَتْ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي لَأَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَتْرُكِ اسْتِلَامَهُمَا إِلَّا أَنَّهُمَا لَيْسَا عَلَى قَوَاعِدِ الْبَيْتِ، وَلَا طَافَ النَّاسُ وَرَاءَ الْحِجْرِ إِلَّا لِذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول معلوم ہوا کہ حطیم کا ایک حصہ بیت اللہ میں شامل ہے، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کی قسم! میرا گمان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا، میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (رکن عراقی اور رکن شامی) کا استلام بھی اسی لیے چھوڑا ہو گا کہ یہ بیت اللہ کی اصلی بنیادوں پر نہ تھے اور اسی وجہ سے لوگ حطیم ۱؎ کے پیچھے سے طواف کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6958)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 59 (1608)، صحیح مسلم/الحج 40 (1335)، سنن النسائی/الحج 156 (2951)، سنن ابن ماجہ/المناسک 27 (2946)، مسند احمد (2/86، 114، 115)، سنن الدارمی/المناسک 25 (1880) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: چونکہ حطیم (کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے) بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، اس لئے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله ولا طاف الناس
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1875  
´ارکان کعبہ کے استلام (چھونے اور چومنے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول معلوم ہوا کہ حطیم کا ایک حصہ بیت اللہ میں شامل ہے، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کی قسم! میرا گمان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا، میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (رکن عراقی اور رکن شامی) کا استلام بھی اسی لیے چھوڑا ہو گا کہ یہ بیت اللہ کی اصلی بنیادوں پر نہ تھے اور اسی وجہ سے لوگ حطیم ۱؎ کے پیچھے سے طواف کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1875]
1875. اردو حاشیہ: اگر حجر اور حطیم کے اندر کی طرف سے طواف کیاجائے تو پورے بیت اللہ کاطواف نہ ہوگا۔اس لئے اس کا طواف باہر سے کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1875