سنن ابي داود
كِتَاب الْمَنَاسِكِ -- کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
79. باب الْحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ
باب: بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1981
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ بِمِنًى فَدَعَا بِذِبْحٍ فَذُبِحَ، ثُمَّ دَعَا بِالْحَلَّاقِ فَأَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ فَحَلَقَهُ فَجَعَلَ يَقْسِمُ بَيْنَ مَنْ يَلِيهِ الشَّعْرَةَ وَالشَّعْرَتَيْنِ، ثُمَّ أَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْسَرِ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَا هُنَا أَبُو طَلْحَةَ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ابوطلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الحج 56 (1305)، سنن الترمذی/الحج 73 (912)، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (4116)، (تحفة الأشراف: 1456)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 33 (171)، مسند احمد (3/111،208، 214، 256) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانے کے مقابلے میں منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اور بال منڈوانے اور کتروانے میں یہ خیال رہے کہ اس کو داہنی جانب سے شروع کرے، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1981  
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ابوطلحہ یہاں ہیں؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1981]
1981. اردو حاشیہ:
➊ حجامت کے مسئلے میں بھی شرعی ہدایت یہی ہے کہ پہلے دائیں جانب سے بال کاٹے جائیں۔
➋ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک بال تھے جو صحابہ میں بطور تبرک متداول رہے۔ ان سے شفا بھی حاصل کی جاتی تھی۔ اور یہ صفت صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کے بالوں کوحاصل رہی ہے۔ آج کل کئی مقامات پر سوئے مبارک بیان کیے جاتے ہیں چاہے کہ ان کی موثوق سند پیش کی جائے۔ مگر فی الواقع اس کا پیش کیا جانا ناممکن ہے۔
➌ حصول تبرک کوئی قیاس اور من پسند مسئلہ نہیں اس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ مبارک اشیا مبارک مقامات اور مبارک اوقات وہی ہیں جو احادیث صحیحہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو تبرک کےمعاملے میں متنبہ اور حساس ہونا چاہے۔ یعنی جس بزرگ سمجھ لیا اس کی ہر چیز کو متبرک سمجھنا شروع کردیا یہ یکسر غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بڑھ کر امتیوں میں کون بزرگ ہو سکتاہے؟کوئی نہیں۔ لیکن صحابہ نے صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بالوں وغیرہ کو متبرک سمجھا اور آپ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق تک کی کسی چیز کومتبرک نہیں سمجھا۔ اور فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے نہ کہ آج کل کے شرک وبدعت زدہ لوگوں کا۔
➍ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک کی اہمیت کا اندازہ جلیل القدر مخضرم تابعی امام عبیدہ بن عمرو سلمان ﷫ کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو امام المجدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ﷫ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: «لان تكون عندي شعرة منه احب الي من الدنيا ومافيها» (صحيح البخاري، الوضوء، حدیث170) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک میرے پاس ہو تو یہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ اکبرکبیرا-ہم ان پاکیزہ جذبات واحساسات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، نہ ان کی قدرو منزلت کااندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ معیار کمال درجے کا معیار محبت ہے۔ یا اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں بھی ایسی ہی کمال درجے کی محبت عطا فرما۔آمین۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس خوبصورت قول پر جو عمدہ تعلیق لگائی ہے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے(تفصیل کےلیے دیکھیئے: (سیراعلام النبلاء جلد4 ص42، 43]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1981