سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
20. باب فِي الْوَلِيِّ
باب: ولی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2086
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ ابْنِ جَحْشٍ فَهَلَكَ عَنْهَا وَكَانَ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عِنْدَهُمْ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/النکاح 66 (3352)، (تحفة الأشراف: 15854)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/427) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2086  
´ولی کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2086]
فوائد ومسائل:
1: عورت ازخو اپنا نکاح نہیں کر سکتی۔
ولی کا ہونا صحت نکاح کے لئے لازمی شرط ہے ایسی تمام آیات واحادیث جن میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے وہ ان صحیح احادیث کی روشنی میں ولی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اس اہم فیصلے میں ان پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی رضامندی بلکہ بیوہ سے بالوضاحت مشورہ از بس ضروری ہے۔

2: ام حبیبہ رضی اللہ کا پہلا خاوند (عبیداللہ بن حجش) مسلمان ہو کر حبشہ ہجرت کر گیا تھا مگر وہاں جا کر مرتد ہو گیا اور نصرانی بن گیا تھا۔
ام حبیبہ رضی اللہ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آنے والا اور اس نے ان کو ام المومنین کہہ کر مخاطب کیا اور کہتی ہیں کہ میں گھبرا سی گئی اور اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ ان شاء اللہ رسول اللہ ﷺمجھ سے نکاح کریں گے۔
چنانچہ جب میری عدت ختم ہوگی تو اچانک نجاشی کا پیغامبر دروازے پر آیا۔
دیکھا تو وہ اس کی خادمہ تھی جس کا نام ابرہہ تھا جو بادشاہ کے لباس اور عطریات کا اہتمام کرتی تھی۔
اس نے کہا کہ بادشاہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھا ہے کہ وہ تمہارا نکاح رسول ﷺسے کر دے۔
میں نے کہا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے، کہنے لگی کہ اپنا وکیل بنا دیں۔
چنانچہ میں نے خالد بن سعید بن العاص کو اپنا وکیل بنایا۔
سیرت یعمری میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ ان کے وکیل تھے۔
چنانچہ نجاشیؒ حق مہر ادا کیا اور چار سو مثقال سونا اور بعد ازاں ولیمہ بھی کھلایا۔
بعد ازاں حضرت شرجیل بن حسنہ کی معیت میں ان کو مدینے بھیج دیا گیا۔
(بذل المجهود) اس قصے میں نجاشی ؒ رسول اللہ ﷺکی طرف سے وکیل تھے اور خالد بن سعید یا عثمان رضی اللہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ کے ولی اور وکیل بنے۔
نجاشی ؒ جو سلطان وقت تھے ان کو بھی ولی سمجھا جا سکتا ہے۔
حضرت عثمان کا ذکر صحیح نہیں لگتا کیونکہ وہ اس وقت حبشہ میں نہ تھے بلکہ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد جلد ہی واپس آگئےتھے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2086