سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
24. باب فِي الاِسْتِئْمَارِ
باب: نکاح کے وقت لڑکی سے اجازت لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2094
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، زَادَ فِيهِ: قَالَ:" فَإِنْ بَكَتْ أَوْ سَكَتَتْ"، زَادَ: بَكَتْ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَلَيْسَ بَكَتْ بِمَحْفُوظٍ، وَهُوَ وَهْمٌ فِي الْحَدِيثِ، الْوَهْمُ مِنْ ابْنِ إِدْرِيسَ أَوْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَلَاءِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ أَبُو عَمْرٍو ذَكْوَانُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحِي أَنْ تَتَكَلَّمَ قَالَ:" سُكَاتُهَا إِقْرَارُهَا".
اس سند سے بھی محمد بن عمرو سے اسی طریق سے یہی حدیث یوں مروی ہے اس میں «فإن بكت أو سكتت» اگر وہ رو پڑے یا چپ رہے یعنی «بكت» (رو پڑے) کا اضافہ ہے، ابوداؤد کہتے ہیں «بكت» (رو پڑے) کی زیادتی محفوظ نہیں ہے یہ حدیث میں وہم ہے اور یہ وہم ابن ادریس کی طرف سے ہے یا محمد بن علاء کی طرف سے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوعمرو ذکوان نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اس میں ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول! باکرہ تو بولنے سے شرمائے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث محمد بن العلاء قد تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15035)، وحدیث أبو عمر وذکوان عن عائشة، قد رواہ صحیح البخاری/النکاح 41 (5137)، صحیح مسلم/النکاح 9(1420)، سنن النسائی/ النکاح 34 (3268)، (تحفة الأشراف: 1675)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/45، 165، 203) (صحیح)» ‏‏‏‏ (مگر «بکت» کا لفظ شاذ ہے)

قال الشيخ الألباني: شاذ