سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ -- کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
46. باب فِي جَامِعِ النِّكَاحِ
باب: نکاح کے مختلف مسائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 2162
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی بیوی کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں صحبت کرے اس پر لعنت ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/النکاح 29 (1923)، (تحفة الأشراف: 12237)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9015)، مسند احمد (2/272، 344، 444، 479)، سنن الدارمی/الطہارة 114(1176) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث639  
´حائضہ عورت سے جماع منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حائضہ کے پاس آئے (یعنی اس سے جماع کرے) یا عورت کے پچھلے حصے میں جماع کرے، یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے، تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 639]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے وہ سب حرام ہیں۔

(2)
ان اعمال کے مرتکب افراد کو شریعت اسلامی کے ساتھ کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کافروں کے کام ہیں مسلمانوں کو ایسے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
اللہ نے عورت سے مباشرت کا ایک فطری طریقہ مقرر کیا ہے جس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوتی ہے۔
پاخانے (دبر)
کا راستہ اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا ہے یہ غیر فطری طریقہ ہے جس میں حضرت لوط علیہ السلام کی بدکردار قوم سے مشابہت پائی جاتی ہے۔

(4)
بعض لوگوں نے عورتوں سے خلاف فطرت فعل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
اس کے لیے اس آیت سے استدلال کیا ہے:
﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾ (البقرۃ: 2؍223)
تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی (کی طرح)
ہیں تم اپنی کھیتی میں آؤ جیسے چاہو۔
ان کا یہ استدلال درست نہیں کیونکہ
(ا)
عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کھیت وہی ہوتا ہے جہاں بیج ڈالا جائے تو اگے، پاخانے کا راستہ اس قابل نہیں۔
پیدائش کا تعلق اگلے راستے سے ہی ہے۔

(ب)
ایام حیض میں آگے کے راستے سے بھی پر ہیز کا حکم دیا گیا ہےاور وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ نجاست ہے۔
دوسرا راستہ تو صرف نجاست ہی کے لیے ہے وہ کیسے حلال ہوسکتا ہے۔

(ج)
اگر ﴿أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾ کا ترجمہ جہاں سے چاہو کیا جائے تو بھی اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پیچھے کے رخ سے ہو کر آگے کے مقام میں دخول کرے تو جائز ہے جس طرح براہ راست آگے کے رخ سے دخول جائز ہے جیسے کہ حدیث میں اسکی وضاحت ہے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، النكاح، باب جواز جماعة امرأته في قبلها، من قدامها ومن ورائها، من غير تعرض للدبر، حديث: 1435)

کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب کی باتیں جاننے کا دعوی رکھتا ہے یا مستقبل کے بارے میں بتاتا ہے۔
ہمارے ہاں جو نجوم، رمل، جفر کے نام سے قسمت بتانے کا دعوی کرتے ہیں وہ سب اس وعید میں شامل ہیں۔
ان کی بتائی ہوئی کوئی بات سچ ثابت ہوجائے تو بھی ان لوگوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے پاس جاکر کچھ پوچھنا ہی گناہ ہے اگرچہ ان کی بتائی ہوئی بات پر یقین نہ کرے۔
ارشاد نبوی ہے:
جو کسی کاہن کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکھانة واتیان الکھان، حدیث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 639   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 135  
´حائضہ سے جماع کے جائز نہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی حائضہ کے پاس آیا یعنی اس سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یا کسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کا حال جاننے کے لیے) آیا تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (صلی الله علیہ وسلم) پر نازل کی گئی ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 135]
اردو حاشہ:
1؎:
آپ کا یہ فرمانا تغلیظاً ہے جیسا کہ خود امام ترمذی نے اس کی وضاحت کردی ہے۔
نوٹ:
(سند میں حکیم الأثرم میں کچھ ضعف ہے،
تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے،
الإرواء: 2006)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 135