سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
2. باب فِي الْمَرْأَةِ تَسْأَلُ زَوْجَهَا طَلاَقَ امْرَأَةٍ لَهُ
باب: عورت اپنے (ہونے والے) شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیدے۔
حدیث نمبر: 2176
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا وَلِتَنْكِحَ، فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کر لے، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 58 (2104)، والشروط 8 (2723)، والنکاح 45 (5144)، سنن النسائی/النکاح 20 (3242)، (تحفة الأشراف:13819)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح 4 (1408)، سنن الترمذی/الطلاق 14 (1190)، سنن ابن ماجہ/النکاح 10 (1867)، موطا امام مالک/النکاح 1(1)، مسند احمد (2/238، 274، 311، 318، 394) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 6  
´تقدیر کا بیان`
«. . . 362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ (اپنے لئے) خالی کرائے اور خود نکا ح کر لے، پس اسے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 6]

[وأخرجه البخاري 6601، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ کوئی عورت اپنے شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی دوسری بیوی یعنی اس عورت کی سوکن کو طلاق دے اور نہ عام عورت کسی دوسری عورت کو طلاق دلوا کر اپنا گھر آباد کرنے کے سپنے دیکھئے۔
➋ تقدیر برحق ہے۔
➌ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا» کہہ دو! ہمیں وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے لکھا ہوتا ہے۔ [التوبه: 51]
➍ عورت کے ولی کے لئے یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے کہ نکاح کرنے والا شخص بعد میں دوسرا نکاح نہیں کرسکتا۔
➎ اگر نکاح کے وقت دولہا سے یہ شرط منوالی جائے کہ وہ اس شادی کے بعد جو نکاح بھی کرے گا تو اس کی بیوی کو تین طلاق یا طلاقِ بائن ہے وغیرہ تو یہ شرط فاسد وباطل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے اسی کو اختیار کرکے راجح قرار دیا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 18/166] بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ قسم کے حکم میں ہے لہٰذا اُسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔
➏ جس حدیث میں آیا ہے کہ نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کی جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے تو اس سے مراد جائز شرطیں ہیں۔ [التمهيد 18/168]
معلوم ہوا کہ ہر وہ شرط جو کتاب و سنت کے مطابق ہے، اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
➐ ابوالزناد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ شرط مقرر کی تھی کہ میرا گھر اس کا ہو گا پھر وہ بعد میں اسے نکالنے لگا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ گھر اس عورت کا ہے، وہ اپنی بیوی کو اس گھر سے نہیں نکال سکتا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2٠٠/4 ح16448، وسنده صحيح]
➑ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا انتہائی مذموم عمل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 362   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2176  
´عورت اپنے (ہونے والے) شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیدے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کر لے، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2176]
فوائد ومسائل:
یعنی کسی مسلمان بہن کو طلاق دلوانا بہت بری بات ہے بلکہ چاہیے کہ رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرے۔
اس کو طلاق دلوا کر یہ نہ اپنے لیے کچھ اضافہ کرسکتی ہے اور نہ اسکا کچھ نقصان کر سکتی ہے. لہذا اگر اسی مرد کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2176