سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
4. باب فِي طَلاَقِ السُّنَّةِ
باب: سنت کے مطابق طلاق کا بیان۔
حدیث نمبر: 2183
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ:" كَمْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ؟" فَقَالَ:" وَاحِدَةً".
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: 2179، (تحفة الأشراف: 8573) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2183  
´سنت کے مطابق طلاق کا بیان۔`
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2183]
فوائد ومسائل:

یہ احادیث سورۃالطلاق کی پہلی آیت کی تفسیر ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد:(فطلِّقُوهُنَّ لِعدَّتِهِنَّ) (الطلاق:١) انھیں ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی اس طہر کے ایام میں جن کی مباشرت نہ کی گئی ہو۔


ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اور بدعت ہے۔
تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔


ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم اگر کوئی ان ایام میں طلاق دے گا تو وہ واقع ہوجائے گی۔


ایسی صورت میں صاحب طلاق کو رجوع کا حکم دیا جائے گا (تاہم وہ ایک طلاق شمار ہوگی) اور رجوع کا حق صرف شوہر کو حاصل ہے ولی کو نہیں اور یہ رجوع واجب ہے۔


حمل کے ایام میں بھی طلاق ہوسکتی ہے۔


اور طلاق ایک ہی دینی چاہیے۔
اور اس کی آخری روایت میں جواب ہےاس روایت کا جودارقطنی میں آئی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں مگر وہ بالکل ضعیف ہے۔
صحیح یہی ہے کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی۔


اور سب کے نزدیک طلاق کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں۔
بہ یک وقت تین طلاقیں دینا سب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناجائز ہے نبی ﷺ نے بھی اس پر سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار فرمایا ہے۔
اگر طلاق دینے والے یہ طریقہ اختیار کرلیں تو اس مسئلے میں سرے سے اختلاف ہی پیدا ہو نہ حلالہ مروجہ جیسے لعنتی فعل کے اختیار کرنے ہی کی ضرورت پیش آئے۔
کیونکہ ایک طلاق کی صورت میں سب کے نزدیک عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت گزرنے کے بعد ان کے مابین دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔
دوسری مرتبہ طلاق میں بھی اسی طرح دونوں باتیں جائز ہیں۔
اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب طلاق دینے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور بیک وقت تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں۔
اس صورت میں اہلحدیث کہتے ہیں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے کیونکہ ان کو بہ یک وقت نافذ کر دینے میں اللہ کی وہ حکمت اورمنشاء فوت ہوجاتی ہے جو اللہ نے (الطلاق مرتان) میں بیان فرمائی ہے۔
اور دوسرے حضرات تین ہی باور کرکے ہمیشہ کے لئے جدائی کا یا پھر حلالہ مروجہ ملعونہ کا فتوی جاری کر دیتے ہیں۔
اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش بڑی اہم ہے کہ بہ یک وقت تین طلاقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
کاش اس پر عمل کی کوئی صورت پیدا ہو۔
فی الحال کم ازکم یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ تحریری طلاق میں خاوند اور طلاق نویس (وکیل وغیرہ) کو مجرم قرار دیا جائے اور اس کی کوئی تعزیری سزا بھی تجویز کی جائے۔
یہ ایک قابل عمل صورت ہے اس کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ غلط طریقہ طلاق سے باز آجائیں گے۔
اللہ تعالی کسی حکومت کو اس اہم مسئلے کو اس طریقے سے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2183