سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
5. باب الرَّجُلِ يُرَاجِعُ وَلاَ يُشْهِدُ
باب: آدمی طلاق سے رجوع کر لے اور گواہ نہ بنائے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2186
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ سُلَيْمَانَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا، فَقَالَ:" طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا، وَلَا تَعُدْ".
مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کر لے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الطلاق 5 (2025)، (تحفة الأشراف: 10860) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2186  
´آدمی طلاق سے رجوع کر لے اور گواہ نہ بنائے اس کے حکم کا بیان۔`
مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کر لے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2186]
فوائد ومسائل:
سورۃالطلاق میں ہے: (فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ) (الطلاق:2) جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رکھو یا دستور کے مطابق الگ کر دو۔
اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو اور طلاق اور رجوع میں گواہ بنا لینا مستحب اور افضل ہے۔
بالخصوص جب رجوع زبانی ہو۔
رجوع بالفعل میں گواہ کے کوئی معنی نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2186