سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
10. باب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاَثِ
باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2199
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: أَبُو الصَّهْبَاءِ، كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟" قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا، قَالَ: أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5763) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس سند میں غیر واحد مبہم رواة ہیں، مگر اس میں «غیرمدخول بہا» کا لفظ ہی منکر ہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں)

وضاحت: ۱؎: مگر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2199  
´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔`
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2199]
فوائد ومسائل:
اس روایت میں (قبل ان يدخل بها) قبل ازمباشرت کا اضافہ منکر ہے۔
تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ ج؛11343) صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ انتہائی صریح اور صاف ہیں (كان الطلاق علي عهد رسول الله ﷺوابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب:ان الناس قداستعجلو في امر قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه عليهم فامضاه عليهم) (صحيح مسلم الطلاق حديث:١٤٧٤) رسول الله ﷺ کے زمانے میں عہد ابی بکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیںصایک ہی ہوا کرتی تھی تو عمر بن خطاب نے کہا:لوگ اس معاملہ (طلاق) میں جس میں انہیں مہلت حاصل تھی جلدی کرنے لگے ہیں۔
اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی) نافذ کردیں (تو بہتر رہے) چنانچہ انہوں نے اس کو نافذ کردیا۔
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کی کوئی قید نہیں۔
یہ نص ناقابل انکار ہے انتہائی محکم اور ثابت ہے منسوخ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کےبعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں اسی عمل ہوتا رہا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت اس کے بالمقابل کسی نص سے نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ قبل از نفاذ انہیں تردد واضطراب رہا تھا۔
اور مصر اور شام وغیرہ میں جب اس حکم کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے تو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیا ہےتو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیاہے۔
کاش کہ یہ لوگ اپنی عبادات ومعاملات میں سنت کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔
(ملحوظہ) مترجم عرض کرتا ہے برصغیر میں بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ اپنی ذاتی مصالح کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں نہ کہ اتباع سنت کی غرض سے۔
فإلی الله المشتكی
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2199