عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا: کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا: تم اپنے میکے چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ نہ فرما دے وہیں رہنا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی انہوں نے اپنے اس قول سے طلاق کی نیت نہیں کی تو اس سے طلاق نہیں مراد لی گئی، اگر وہ طلاق کی نیت کرتے تو طلاق واقع ہو جاتی، کنائی الفاظ سے اسی وقت طلاق واقع ہوتی ہے جب اس کی نیت کی ہو۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2202
´اشارہ کنایہ سے طلاق دینے کا بیان اور یہ کہ احکام کا دارومدار نیتوں پر ہے۔` عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا: کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چنانچہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2202]
فوائد ومسائل: 1. اگر شوہر بیوی کو یوں کہ دے کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے۔ اور طلاق کی نیت کی ہو تو طلاق ہوجائے گی ورنہ نہیں۔
2۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں سورہ توبہ کی آیت کریمہ: (وعلی الثلاثةِ الذينَ خُلِّفُوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )(التوبة:118) کے ضمن میں دیکھ لیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2202