سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
19. باب فِي الْمَمْلُوكَةِ تَعْتِقُ وَهِيَ تَحْتَ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ
باب: آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2232
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُسَمَّى مُغِيثًا، فَخَيَّرَهَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث رضی اللہ عنہ تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الطلاق 15 (5280)، (تحفة الأشراف: 6189)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/281، 361) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2232  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث رضی اللہ عنہ تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2232]
فوائد ومسائل:
صحیح حدیث میں ہے کہ اسے تین حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2077) کیونکہ وہ آزاد ہو چکی تھی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2232   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2231  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس سے میری سفارش کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2231]
فوائد ومسائل:

غلام اور لونڈی اگر عقد زوجیت میں منسلک ہوں لیکن لونڈی کو پہلے آزادی مل جائےتو اسے اپنے (غلام) شوہر کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہے۔
اگر شوہر پہلے آزاد ہوجائےتو بیوی کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
درج ذیل احادیث میں مذکورہواقعہ بریرہ (لونڈی) اور اس کے شوہر مغیث (غلام) کا ہے۔
بریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے پہلے آزاد کر دیا تھا جبکہ مغیث رضی اللہ عنہ غلام ہی رہے تھے۔


بریرہ رضی اللہ عنہ جیسی عورت جسے ایک صحیح حدیث میں ناقص العلقل کہا گیا ہے دین کے معاملے میں کس قدر دانا تھیں۔
وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ٹال دینا دین ودنیا کا خسارا ہے مگر جب آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ میری یہ بات حکم نہیں محض سفارش ہے تو انہوں نے شرعاً حاصل شدہ اختیار کو ترجیح دی۔
اس واقعہ میں حریت فکر کا درس ہے اور اور یہ بھی کہ یہ آزادی اللہ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے مشروط ہے کیونکہ اللہ تعالی انسان کا خالق ہے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیامبر ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2231   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2075  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام تھا اس کو مغیث کہا جاتا تھا، گویا کہ میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پھر رہا ہے، اور رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہہ رہے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہیں: عباس! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور مغیث سے بریرہ کی نفرت پہ تعجب نہیں ہے؟ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: کاش تو مغیث کے پاس لوٹ جاتی، وہ تیرے بچے کا باپ ہے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر خاوند اور بیوی دونوں غلام ہوں، پھر عورت آزاد ہوجائے تو اسے اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ چاہے اس خاوند کے ساتھ رہے، چاہے تو الگ ہوجائے۔

(2)
الگ ہونے کا فیصلہ کرلینے سے پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے لیکن نئے نکاح کے ساتھ وہ دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کرنے کا مشورہ دیا، اس کا یہی مطلب ہے کہ دوبارہ نکاح کرلو۔

(3)
  اگر پہلے خاوند آزاد ہوجائے تو بیوی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔

(4)
  رسول اللہﷺ کے مشورے اور حکم میں شرعی طور پر فرق ہے۔
حکم ماننا فرض ہے اور مشورہ تسلیم کرنا فرض نہیں، مومن اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔

(5)
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجو ع کا حکم نہیں دیا کیونکہ شریعت نے حضرت بریرہ ؓ کو جو حق دیا تھا، رسول اللہﷺ انہیں اس سے محروم نہیں کرسکتے تھے۔

(6)
  محبت اور نفرت فطری چیزیں ہیں۔
عام معاملات میں کسی کو کسی چیزسے محبت یا نفرت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ ارادے سے کی جانے والی محبت کا تعلق ایمان سے ہے جس میں اللہ عزوجل کی محبت، رسول اللہﷺ کی محبت اور نیک لوگوں سے محبت شامل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2075