سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
25. باب فِي مَنْ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعٍ أَوْ أُخْتَانِ
باب: قبول اسلام کے وقت آدمی کے پاس چار سے زائد عورتیں یا دو بہنیں عقد نکاح میں ہوں تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2243
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ:" طَلِّقْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ".
فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 33 (1129)، سنن ابن ماجہ/النکاح 39 (1951)، (تحفة الأشراف: 11061)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/232) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1951  
´آدمی اگر اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دو سگی بہنیں ہوں تو کیا کرے؟`
فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو سگی بہنیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1951]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کوئی شخص اسلام لانے سے پہلے اپنے طریقے پر نکاح کرے  پھر میاں بیوی مسلمان ہو جائیں تو ان کا پہلا نکاح درست ہو گا، نئے سرے سے نکاح کی ضرورت نہیں۔
اگر اسلام لانے سے پہلے کسی ایسی عورت سے نکاح کیا ہے جس کا نکاح کرنا اسلام میں جائز نہیں تو اسلام لانے کے بعد اس سے جدائی اختیار کرنا ضروری ہے۔
اگر اسلام لانے سے پہلے دو ایسی عورتوں سے نکاح کیا ہوا ہو جن کو بیک وقت نکاح میں رکھنا حرام ہے تو ایک كو طلاق دے دی جائے، دوسری بدستور بیوی رہے گی اور اس کا نکاح صحیح مانا جائے گا۔
اسلام سے پہلے کیے ہوئے اس قسم کے نکاح سے پیدا ہونے والی اولاد جائز اولاد تسلیم کی جائے گی اور اسے باپ کی وراثت میں سے حصہ ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1951   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 859  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا ضحاک بن فیروز ویلمی نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں میں سے جس ایک کو چاہو، اسے طلاق دے دو۔ اسے احمد اور چاروں نے نسائی کے علاوہ روایت کیا ہے۔ ابن حبان، دارقطنی اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے۔ مگر بخاری نے اسے معلول کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 859»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في من أسلم وعنده نساء أكثر من أربع أو أختان، حديث:2243، والترمذي، النكاح، حديث:1129، 1130، وابن ماجه، النكاح، حديث:1950، 1951، وأحمد"4 /232، وابن حبان(الإحسان):6 /181، حديث:4143، والدارقطني:3 /273، والبيهقي:7 /184.»
تشریح:
1.یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفار کے نکاح قابل اعتبار ہیں اگرچہ وہ اسلامی نکاح کے مخالف ہوں۔
اور اسلام قبول کر لینے کے بعد جب تک خاوند عورت کو طلاق نہ دے وہ اس کی زوجیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔
اور اسلام قبول کرنے کے بعد تجدید نکاح کے بغیر نکاح بھی باقی رہتا ہے۔
یہ مذہب امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد اور داود رحمہم اللہ کا ہے۔
(سبل السلام) 2. جامع ترمذی میں فیروز دیلمی سے اس حدیث کے یہ الفاظ منقول ہیں: ان دونوں میں سے جس کا چاہو انتخاب کر لو۔
اس طرح یہ حدیث آنے والی حدیث کے اس اعتبار سے موافق ہوئی کہ جب کوئی نو مسلم شخص اپنی بیویوں میں سے بعض کو پسند کر لے کہ میں فلاں اور فلاں کو اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوں تو ان کا نکاح برقرار رہے گا اور باقی ماندہ بیویوں کو طلاق دیے بغیر اس کے اور ان کے مابین جدائی واقع ہو جائے گی۔
3. یہ دونوں احادیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جدائی میں ترتیب نکاح کا کچھ اثر نہیں ہوتا ہے‘ چنانچہ مرد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ دونوں بہنوں میں سے پہلی کو روک رکھے اور نہ یہ ضروری ہے کہ بیویوں میں سے پہلی چار کو روک رکھے بلکہ اسے اختیار ہے جسے چاہے روک لے اور جسے چاہے جدا کر دے۔
یہ دونوں احادیث احناف کے خلاف حجت ہیں۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ضحاک رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ حا پر تشدید ہے۔
«فَیْروز» فا پر فتحہ‘ یا ساکن اور را پر ضمہ ہے۔
عجمہ اور علمیت کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔
«اَلدَّیْلَمِي» دال پر فتحہ ہے۔
فارس کے مشہور پہاڑ دیلم کی طرف نسبت ہے۔
ضحاک مشہور تابعی ہیں۔
ابن حبان نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور ان کی حدیث بصریوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔
«عَنْ أَبِیہِ» ابوعبداللہ فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ۔
حِمْیَر میں فروکش ہونے کی وجہ سے انھیں حِمْیَري بھی کہا جاتا تھا۔
یہ اہل فارس سے تھے اور صنعاء کے رہنے والے تھے۔
اور یہ اس وفد میں شامل تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔
اور یہی یمن کے مدعی ٔ نبوت اسود عنسی کذّاب کے قاتل ہیں۔
انھوں نے عنسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں قتل کیا تھا اور آپ کو یہ خبر مرض الموت کے دوران میں موصول ہوئی تھی۔
ان کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 859   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2243  
´قبول اسلام کے وقت آدمی کے پاس چار سے زائد عورتیں یا دو بہنیں عقد نکاح میں ہوں تو اس کے حکم کا بیان۔`
فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2243]
فوائد ومسائل:

اسلام سے پہلے کے نکاح اسلام میں صحیح تسلیم کیے جاتے ہیں۔
الا یہ کہ اس میں کوئی اسلامی حرمت موجود ہو۔
مثلاً چار سے زیادہ بیویاں ہوں یا دو بہنیں نکاح میں ہوں۔


آخری حدیث کے راوی فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور انہوں ہی نے عہد نبوی میں مدعی نبوت اسود کو قتل کیا تھا۔
(تقریب التھذیب)

اسلام قبول کرتے ہی انسان پر شرعی احکام نافذ ہوجاتے ہیں اور جب ہوجاتا ہے کہ کسی پس وپیش کے بلاتاخیر ان پر عمل کیا جائے جیسے کہ ان واقعات سے واضح ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2243