سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق -- کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
27. باب فِي اللِّعَانِ
باب: لعان کا بیان۔
حدیث نمبر: 2251
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ:" شَهِدْتُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تَلَاعَنَا"، وَتَمَّ حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يُتَابِعْ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَحَدٌ عَلَى أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (2245)، (تحفة الأشراف: 4805) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح خ بلفظ الآخرين
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 536  
´غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے اجتناب کرنا `
«. . . ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: ارايت يا عاصم لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه ام كيف يفعل؟ . . .»
۔۔۔عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟۔۔۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 536]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34، التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152 ● أخرجه البخاري 5259، ومسلم 1492، من حديث مالك به]
تفقہ:
شریعت میں لعان یہ ہے کہ خاوند چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کی طرف زنا کی نسبت کرنے یعنی اسے زنا سے متہم کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ ہو کہ وہ کہے اگر وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہو تو وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو، پھر بیوی چار دفعہ خاوند کے جھوٹا ہونے پر قسم کھائے اور اس کی پانچویں قسم یہ ہو کہ اگر وہ سچا ہو تو وہ (بیوی) خدا کے غضب کی مستحق ہو یہ کہنے پر وہ حد زنا سے بری ہو جائے گی۔ [القاموس الوحيد ص 1478]
➋ لعان کا حکم قرآن مجید میں سورۃ النور میں نازل ہوا ہے۔ ديكهئے: [آيت: 6، 7]
➌ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفرقہ یعنی جدائی نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب اللعان و من طلق بعد اللعان» لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔ [كتاب الطلاق باب: 29 قبل ح 5308]
➍ واقع شدہ مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہئے اور غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ لعان کے بعد شرعی ثبوت کے بغیر فریقین پر حد جاری نہیں ہو گی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 6   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2251  
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ: آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2251]
فوائد ومسائل:
ان زوجین میں تفریق فسخ کی بناء پر تھی نہ کہ طلاق کی بناء پر کیونکہ یہ طلاق رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے نہ تھی جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔
اور تفریق کا مطلب یہاں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعان کا یہ حکم بیان کیا کہ اس کے بعد دونوں میاں بیوی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی (تفریق) ہوگئی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2251   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2245  
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2245]
فوائد ومسائل:
حضرت عويمر رضي الله عنه کا طلاق دینا گیرت اور غضب کی بناء پر تھا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے۔
(اس مسئلے کی وضاحت آگے حدیث نمبر 2250کے فائدے میں آرہی ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2245   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 940  
´لعان کا بیان`
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والوں کے قصہ میں مروی ہے کہ جب دونوں لعان سے فارغ ہو گئے تو مرد بولا اے اللہ کے رسول! اور اگر میں اب اسے روک لوں گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے پھر اس نے اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم ارشاد فرماتے، تین طلاقیں دے دیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 940»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب اللعان، حديث:5308، ومسلم، اللعان، حديث:1492.»
تشریح:
اس مرد نے اپنی لعان شدہ بیوی کو تین طلاقیں اس لیے دیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ لعان بذات خود ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے‘ چنانچہ اس نے بیوی کو بذریعۂ طلاق ہی حرام کرنا چاہا‘ لہٰذا طلاق لغو ہوئی‘ کیونکہ طلاق اپنے مقام پر واقع ہی نہیں ہوئی۔
اگر ہم کہیں کہ جدائی محض لعان سے ہو جاتی ہے تو یہ ظاہر بات ہے، اور اگر کہیں کہ جدائی حاکم (اور عدالت) کے ذریعے سے واقع ہوتی ہے تو پھر یہ تو طے شدہ بات ہے کہ لعان کے بعد نکاح کے باقی رہنے کا کوئی امکان رہتا ہے نہ اس کے ہمیشہ رہنے کی کوئی سبیل ہی‘ بلکہ اس نکاح کو ختم کرنا اور عورت کو اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار دینا واجب ہوتا ہے‘ پس اس سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیں محض مقصد لعان کو مؤکد کرنے کے لیے تھیں‘ اس لیے ایسے نکاح‘ جسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود ہوتا ہے‘ میں بیک وقت تین طلاقیں نافذ کرنے سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ جس نکاح کی بقا اور دوام مطلوب ہے اس میں بھی ایسا کرنا درست اور جائز ہے‘ لہٰذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہوا جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بیک وقت تین طلاقیں دینے اور ان کے واقع ہو جانے کا جواز موجود ہے۔
اور جب یہ طلاق غیرت و حمیت کی بنا پر دی گئی جبکہ ایسے موقع پر اس کا اظہار مطلوب بھی ہے اور قابل ستائش و تعریف بھی ‘ تو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کے لغو ہونے کی اطلاع دینے کے لیے صرف لَا سَبِیلَ لَکَ عَلَیْھَا تیرا اس عورت پر کوئی حق نہیں کہنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ مسلم (۱۴۹۳)میں ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تیرا اس عورت پر کوئی حق باقی نہیں رہا‘ لہٰذا تیری طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ لغو ٹھہرے گی‘ اسی لیے آپ اس پر ناراض و غضبناک نہیں ہوئے جس طرح اس شخص پر ہوئے تھے جس کا قصہ محمود بن لبید نے بیان کیا ہے جو کہ طلاق کے باب میں (حدیث:۹۱۸ کے تحت) گزر چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 940